• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ احسان فراموش قوموں نے کبھی کسی کی دوستی کا حق ادا نہیں کیا۔ ان کے وجود میں وفا کی خوشبو نہیں بلکہ مفاد کی بو بسی ہوتی ہے۔ یہی حال افغانستان اور اس کے حکمرانوں کا ہے، جو گزشتہ سات دہائیوں سے مسلسل جفا کرتےچلےآرہے ہیں۔ پاکستان نے ان کیلئے جو قربانیاں دیں، وہ اگر کسی اور قوم کیلئے دی جاتیںتوشاید وہ قوم نسلوںتک احسان مند رہتی۔ مگرافسوس، افغانستان نے پاکستان کو ہمیشہ دھوکے اور زخموں کے سوا کچھ نہیں دیا۔14 اگست 1947ء کو جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تودنیا کے تقریباً تمام ممالک نے اس نئی ریاست کو دل سے تسلیم کیا۔ مگر افغانستان وہ واحد ملک تھا جس نے اقوام متحدہ میں پاکستان کی رکنیت کی مخالفت کی اور جب تک افغانستان کے شاہ ظاہر شاہ حکومت میں رہےانہوں نےکبھی پاکستان کو دل سے تسلیم نہ کیا ۔

1979ء میں جب سوویت یونین نے افغانستان پر چڑھائی کی تو دنیا میں پہلی بار اتنی بڑی تعداد میں کسی ملک کے عوام نے ہجرت کی جسکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پاکستان نے چار سے پانچ ملین پناہ گزینوں کو نہ صرف خوشدلی سے پناہ دی بلکہ اسکول، اسپتال، خوراک، رہائش اور روزگار کے مواقع بھی فراہم کیے۔ یہ کوئی چند ماہ یا چند سال کا بوجھ نہیں تھا ،بلکہ چار دہائیوں پر محیط ایک طویل آزمائش تھی۔ پاکستان نے ان افغان پناہ گزینوں کو اپنے دل اور گھر میں بسائے رکھا ۔ مگر اس کا صلہ کیا ملا؟ کلاشنکوف کلچر، منشیات، دہشت گردی، اور معاشی تباہی۔ان عناصر نےپاکستان کی سڑکوں پر کلاشنکوف کلچر پھیلایا اورنئی نسل کو تباہ کر کے رکھ دیا۔یہ وہی قوم ہے جسے ہم نے اپنے ہی گھر میں مہمان سمجھ کر رکھا لیکن ان افغانوں نے پاکستان کے خیرخواہ ہونے کا کبھی ثبوت فراہم نہ کیا حالانکہ ان کابرسر اقتدارآنابھی پاکستان کے مر ہونِ منت ہے، لیکن طالبان نے پاکستان سے خوشگوار تعلقات قائم کرنے کی بجائے بھارت کا آلہ کاربننے کو ترجیح دی ۔ اس سلسلے میں اجیت ڈول جب را کے سربراہ تھے تو ان کا ویڈیو بیان سامنے آیا تھاجس میں انہوں نے کہا تھا کہ ہم طالبان کو بہتر معاوضے پر خرید سکتے ہیںاور شاید طالبان اسی معاوضے کے منتظر تھے اور اسی معاوضے کے نتیجے میں طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی نےاپنےدورہ بھارت کے دوران جموں کشمیر کو بھارت کا حصہ قرار دےکراور اسکے فوراً بعد توپوں سے پاکستان پر حملہ کرکے یہ ثابت کردیا کہ بھارت نے ان کی اچھی قیمت ادا کردی ہے۔ طالبان نےحالیہ کچھ عرصے سے جس طرح سرحد پار سے پاکستان کے فوجیوں پر حملے کیے اوران کو شہید کیا اس کے پیچھے بھارت ہی کاہاتھ ہے۔حالانکہ پاکستان ہمیشہ اسے برادر اسلامی ملک کہتا چلا آرہا تھااور ہمیشہ سرحد پار سے پاکستان میں دہشت گردی کے حملوں کو روکنےکیلئے اسے سمجھانے کی کوشش کرتا چلا آیا ہے لیکن طالبان نے اس طرف کبھی توجہ نہ دی اور یہ حملے جاری رہے۔

پاکستان کا ازلی دشمن بھارت، جس نے ہمیشہ پاکستان کو نقصان پہنچانے کی کوشش کی، اب افغانستان میں اپنے پنجے گاڑ چکا ہے۔ بھارت کے قونصل خانے در اصل اسکے انٹیلی جنس نیٹ ورک اور ٹریننگ کیمپ ہیں جو افغانستان کے مختلف شہروں میں پاکستان مخالف سرگرمیوں کے گڑھ بن چکے ہیں۔ طالبان حکومت اگرچہ ظاہراً اسلامی شعار کا دعویٰ کرتی ہے، مگر حقیقت میں وہ بھارتی خفیہ ایجنسیوں کے ہاتھوں میں کھیل رہی ہے۔

پاکستان نے ہمیشہ اسلامی اخوت کی بنیاد پر افغانستان سے برادرانہ تعلقات کی کوشش کی مگر یہ تعلق ہمیشہ یکطرفہ رہا۔ دنیا کے دوسرے ممالک ، ترکیہ، شمالی قبرصی، ترک جمہوریہ، آذربائیجان، بوسنیا، چیچنیا ، آج بھی پاکستان کے احسانات کے شکر گزار ہیں۔ مگر افغانستان؟ان کے بالکل برعکس ہے۔پاکستان میں چالیس سال سے پناہ گزین یہ طالبان آج پاکستان کے خلاف نفرت کا پرچارکرتے دکھائی دیتے ہیں۔کسی نے کیا خوب کہا ہے، طالبان پربھروسہ کرنا اپنے آپ کو فریب دینا ہے ۔ ان کا ماضی وعدوں کی خلاف ورزیوں سے بھرا پڑا ہے۔ آپ ذرا سوچیےماضی میں طالبان رہنماؤں میںسےمولوی یونس خالص، گلبدین حکمت یار، عبدالرسول سیاف، مولوی محمد نبی محمدی، پیر سید احمد گیلانی، صبغت اللہ مجددی اور برہان الدین ربانی نے مکہ مکرمہ میں خانۂ کعبہ کے اندر ، قرآن پر ہاتھ رکھ کر اپنے اختلافات ختم کرنے اور امن قائم کرنے کی قسم کھائی تھی لیکن چند روز بعد ہی یہ قسم توڑ ڈالی تھی۔ اس لیے طالبان پر یقین کرنا یا بھروسہ کر نا اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ اب پاکستان کیلئےاس ضمن میںسخت فیصلے کر نے کا وقت آن پہنچا ہےاور اسےاپنی آستین کے ان سانپوں کے سر کو کچلنے کی ضرورت ہے۔افغانستان کی دوغلی سیاست، طالبان کی دھوکہ دہی اور بھارت کے ساتھ ان کی خفیہ ملی بھگت کا خاتمہ اسی وقت ممکن ہے جب پاکستان اپنے قومی مفاد کو سب پر فوقیت دے۔ تمام غیر قانونی افغان باشندوں کو ملک بدر کیا جائے، افغان سرحد کو ناقابلِ عبور بنایا جائے، طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات کو محدود کر کے پاکستان کی سلامتی کو اولین ترجیح بنایا جائے،بھارت افغان گٹھ جوڑکے توڑ کیلئے ترکیہ، آذربائیجان، ایران اور وسط ایشیائی ممالک کے ساتھ نئے دفاعی اور تجارتی تعلقات استوار کیے جائیں۔ افغانستان کا مسئلہ کبھی مذہب یا نظریہ نہیں رہا ، یہ خالص مفاد، خودغرضی اور اقتدار کی ہوس کا کھیل رہا ہے۔طالبان کا رویہ ہمیں کھرے اور کھوٹےکی پہچان کا موقع فراہم کرتا ہے ۔ طالبان ہوں یا سابقہ افغان حکومتیں، سب کا مقصد ایک ہی رہا ہے: پاکستان کو کمزور کرنا اوربھارت کو خوش کرنا۔ لیکن ہمارا مقصد وطن کی سالمیت اور استحکام قائم کرنے کیلئے اپنی جانوںکی پروا نہ کرنے والی سیکورٹی فورسز کی پشت پناہی کرنا اور انکے حوصلے بڑھانا ہے کیونکہ پاکستان ہمارا ہے جو ہمیں اپنی جان سے بھی پیارا ہے۔

تازہ ترین