• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب مغل شہنشاہ شاہجہاں کو انکے بیٹے اورنگ زیب عالمگیر نے آگرہ قلعہ میں قید کر دیا توشاہجہاں نے فرمائش کی انہیں کچھ طالب علم مہیا کئے جائیں تاکہ وہ انہیں قرآن پاک پڑھا سکیں اور قید کا وقت کچھ بہتر گزر جائے۔ اس پر اورنگ زیب نے جواب دیا کہ قید میں بھی ابا حضور کی حکمرانی کی خواہش نہیں گئی اور اب بھی آپ چاہتے ہیں کہ کوئی تو ہو جس پر میں اپنا حکم چلا سکوں ۔ یہ حکایت تو چند سو سال پرانی ہے لیکن تین مرتبہ وزیراعظم پاکستان اور دو مرتبہ وزیراعلی ٰپنجاب رہنے والے میاں نواز شیریف جب لاہور شہر کے قدیمی تاریخی ورثے کی بحالی کے حوالے سے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہیں تو بے اختیار شاہجہاں سے منسوب حکایت یاد آتی ہے۔ یاد رہے کہ شاہجہاں نے برصغیر کو تاج محل آگرہ اور لال قلعہ دہلی جیسے شاہکار دئیے تو نواز شریف پاکستان میں موٹرویز کے بانی سمجھے جاتے ہیں۔ اس خطے میں مغل درباروں میں مختلف شہزادوں اور شہزادیوں کے اثر ورسوخ، طاقت کے حصول کیلئے منصوبہ بندی اور مفادات کی کشمکش کے کئی اور واقعات بھی تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔ پھر انگریز دور حکومت اور اسکے بعد برصغیرکی تقسیم کے بعد نظام تو تبدیل ہو گئے لیکن اس کھیل کے طریقہ کار اور کھلاڑیوں کی ذہینت میں تبدیلی نہ آسکی۔ اسی تناظر میں الیکشن 2024 کے تحت بننے والے نئے انتظام میں نواز شریف کو مکھن میں سے بال کی طرح علیحدہ کر دیا گیا۔ کیونکہ انکے بھائی اور بیٹی نئے نظام میں قابل قبول تھے جبکہ انکے حوالے سے کئی سوالیہ نشان موجود تھے کیونکہ ماضی میں جب بھی نواز شریف اقتدار میں آئے انہوں نے کسی نہ کسی کو ضرور ناراض کیا۔ اسلئے اس مرتبہ خاندان کی جانب سے ہی یہ فیصلہ کیا گیا کہ تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے شخص کو اب آرام کرنا چاہیے۔ میاں نواز شریف جب بھی قومی اسمبلی پہنچے اور انکی جماعت کو اکثریت ملی تو وزارتِ عظمیٰ کی کرسی انکی منتظر رہی۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ اسمبلی میں اس حال میں پہنچے کہ انکی جیت پر بھی سوالیہ نشان تھا اور ایوان میں موجود ہونے کے باوجود انکی جماعت نے انہیں وزیراعظم کے منصب پر فائز نہ کیا۔ دل کی تسلی کیلئے انہیں قائد، رہنما، سرپرست تو کہا جاتا ہے لیکن بے بسی کا عالم یہ ہے کہ وہ کسی مقدمے میں نااہل بھی نہیں، رکن اسمبلی بھی ہیں، انکی جماعت کی اکثریت بھی ہے لیکن وہ وزیراعظم پاکستان نہیں ہیں۔ تاریخ میں جب بھی اقتدار کی کشمکش، خفیہ منصوبہ بندیوں اور سرکار دربارکے گٹھ جوڑ کا تذکرہ آتا ہے تو انہیں محلاتی سازشوں کا نام دیا جاتا ہے ۔ اقتدار کے اس کھیل میں طاقت کے حصول کیلئے راستہ بنانا سب کی خواہش ہوتی ہے لیکن منزل پانے کیلئےترتیب دی جانے والی حکمت عملی میں کون کس کی قربانی دیتا ہے، یہ اہم شمار کیا جاتا ہے۔ پاکستانی سیاست میں ایک مرتبہ پہلے بھی ایسا ہو چکا ہے، جب بینظیر بھٹو نے اپنی والدہ نصرت بھٹو کو مادر ِجمہوریت کے عہدے پر فائز کیا لیکن پارٹی قیادت اور حکومتی بندوبست سے دورکر دیا ۔طاقت کے ایوانوں میں ہونیوالے اقتدار کے اس کھیل میں کئی مرتبہ خون کے رشتے ہی سب سے کمزور نکلتے ہیں ۔ نصرت بھٹو اپنی بیٹی کی کابینہ میں وفاقی وزیر بھی رہیں لیکن بعد ازاں اپنے بیٹے مرتضی بھٹو کی حمایت کی وجہ سے انہیں اپنی پارٹی اور بیٹی دونوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہاں تک کہ 1994میں جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم پاکستان تھیں اور موجودہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے والد عبداللہ شاہ وزیراعلیٰ سندھ تھے تو ایک محیر العقل حکم جاری کیا گیا کہ وزیراعظم کی والدہ نصرت بھٹو کو نظر بند کیا جاتا ہے اور انہیں اپنے شوہر ذوالفقارعلی بھٹو کے مزار پر جانے کی اجازت نہیں ۔ تاریخ نے یہ منظر بھی دیکھا کہ وزیراعظم کی والدہ نے اپنے شوہر کی قبر پر جانے کیلئےاجازت طلب کی لیکن نہ ملی۔ آخر کار نصرت بھٹو نے کچھ کارکنان کے ساتھ بھٹو کی قبر پر جانے کی کوشش کی تو ان پر لاٹھی چارج ، شیلنگ اور فائرنگ کی گئی۔ کچھ کارکنان جان سے بھی گئے لیکن اس دن کے بعد سے یہ طے ہو گیا کہ اب نصرت بھٹو کو بقیہ زندگی گوشہ تنہائی میں گزارنا ہو گی۔ اور پھر وہی ہوا کہ نصرت بھٹو نے مرتے دم تک گمنامی کی زندگی گزاری۔ نواز شریف خوش قسمت ہیں کہ ابھی تک انہیں ان حالات کا سامنا نہیں ۔ شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ نواز شریف کے صاحبزادوں میں مرتضیٰ بھٹو جیسا باغی شہزادہ نہیں اور حسین نواز، حسن نواز کو سیاست میں آنے یا پارٹی کی سربراہی کرنےکی خواہش بھی نہیں۔ وگرنہ مریم نواز کو بھی پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کیلئے بے نظیر بھٹو کی طرح خصوصی اقدامات کرنا پڑتے۔دنیا میں قائم کئی بادشاہتوں میں جب بھی محلاتی سازشوں کی وجہ سے کسی بادشاہ کواسکےاپنے ہی اہل خانہ معزول کرتے ہیں تو اسے Bloodless coup (کسی کا خون بہائے بغیر اقتدار پر قبضہ کرنا) کاخوبصورت نام دیکر اس بغاوت کی حساسیت کو کم کیا جاتا ہے۔ معزولی کے بعد بادشاہ اقتدار سے محروم تو ہو جاتا ہے لیکن اسکی عزت و تکریم میں کمی نہیں کی جاتی۔ معزول بادشاہ اپنی بقیہ عمر سماجی خدمت اور دیگر بے ضرر مشاغل میں گزار دیتے ہیں۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے نواز شریف کا سیاسی مستقبل یہی ہو گا کہ وہ لاہور اور مری کی خوبصورتی میں اضافے اور تاریخی عمارتوں کی بحالی کے اجلاسوں میں شرکت کیا کریں گے کیونکہ ایسا لگتا ہے کہ ہر دور میں اسٹیبلشمنٹ کے طاقتوروں سے نبرد آزما ہونے والے قائد جمہوریت اپنے خاندان کی اندرونی کشمکش میں قربان کئے جا چکے ہیں۔

تازہ ترین