اگرچہ نیروبی اور ممباسا کے درمیان روزانہ چالیس پچاس فلائٹس چلتی ہیں مگر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بائی روڈ جائیں گے پھر ہمیں کینیا کو سمجھنے والے ایک دوست نے مشورہ دیا، بذریعہ سڑک آپ کو دیر لگے گی، آپ ٹرین کے ذریعے جائیں سو فیصلے کو تبدیل کرتے ہوئے بذریعہ ٹرین جانے کا فیصلہ کیا۔ نیروبی کا ریلوے اسٹیشن ایسے ہی ہے جیسے کسی شاندار ملک کا ائر پورٹ ہو، تمام جدید ترین ذرائع سے آراستہ اس ریلوے اسٹیشن میں ایسے ہی داخل ہوا جاتا ہے جیسے کسی ائر پورٹ میں داخل ہونا ہو۔ ٹرین روانہ ہوئی تو وسیع و عریض جنگلی جھاڑیوں کا سلسلہ دکھائی دینے لگا، یہیں جنگلی حیات کا بسیرا ہے، کہیں ہاتھیوں کے قافلے نظر آئے، کہیں ہرنوں کے جھرمٹ، کہیں زیبروں کے غول، کہیں دندناتے ہوئے بھینسے اور کہیں غراتے ہوئے شیر۔۔۔کینیا نے وسیع و عریض جنگلات کو دکھانے کے لئے سفاری کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ ہم پانچ چھ گھنٹوں کے سفر کے بعد ممباسا پہنچے، ممباسا کا یہ ریلوے اسٹیشن شہر سے باہر بندرگاہ کے پاس ہے۔ ممباسا میں ایک پرانا ریلوےا سٹیشن بھی ہے، جو شہر کے مرکز میں ہے۔ یہاں ایک ٹرین چلتی ہے جو نئے اسٹیشن کو پرانےا سٹیشن سے ملاتی ہے، اسے آپ لوکل ٹرین بھی کہہ سکتے ہیں۔ ویسے وہاں کے لوگ اسے ٹرین ففٹی کہتے ہیں کیونکہ اس کا ٹکٹ پچاس شلنگ کا ہے۔ ممباسا کے دو ریلوے اسٹیشنوں کو دیکھ کر تہران کی یاد آئی، جہاں دو ائر پورٹس ہیں، انٹرنیشنل فلائٹس کے لئے امام خمینی ائر پورٹ ہے جو تہران شہر سے باہر ہے، ایک ائر پورٹ تہران شہر کے مرکز میں ہے، اسے مہر آباد ائر پورٹ کہا جاتا ہے۔ اندرون ملک کے لئے تمام فلائٹس اسی ائر پورٹ سے چلتی ہیں۔ ممباسا کے نئے ریلوے اسٹیشن سے شہر کے پرانے ریلوے اسٹیشن کی طرف جاتے ہوئے لوکل ٹرین میں ہمارے سامنے ایک خوبصورت کینین لڑکی اور لڑکا بیٹھے تھے، باتیں کرتے، ہنستے مسکراتے بہت فرینک تھے۔ میں اپنی نشست سے اٹھا اور ان کے پاس چلا گیا، جاتے ہی انہیں کہنے لگا، آپ کوئی نوبیاہتا جوڑا لگتے ہیں اور آپ کا کپل بڑا خوبصورت ہے۔ میری بات سن کر دونوں نے قہقہہ لگایا، کہنے لگے ’’ہم بہن بھائی ہیں، ویسے ہماری شادیاں ہو چکی ہیں‘‘۔ لڑکی نے کہا ’’میرا نام بیٹرس ہے اور میرا ایک بیٹا ہے، میرے اس بھائی کا نام جون ہے اور اس کے تین بچے ہیں‘‘۔ میں نے اس سے کہا کہ اگر میں فلم ڈائریکٹر ہوتا تو آپ میری فلم کی ہیروئن ہوتیں، وہ مجھے انڈین سمجھ رہی تھی، کہنے لگی ’’انڈین لڑکیاں ہم سے زیادہ خوبصورت ہیں‘‘۔ میں نے اس سے کہا، تم کہیں زیادہ پر کشش ہو۔ میں بہت سی انڈین اداکاراؤں کو جانتا ہوں، میں انڈین اداکاراؤں کے ہوتے ہوئے بھی آپ ہی کو ہیروئن لیتا مگر میں آپ کو بتاتا چلوں کہ میں انڈین نہیں ہوں، میں پاکستانی ہوں اور مجھے اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے، میرا تعلق پاکستانی میڈیا سے ہے۔ خیر میں نے پھر اس سے مشورہ مانگا کہ ہمیں ممباسا میں کہاں رہنا چاہئے؟ اس نے کہا نیالی۔ میں نے کہا، اس نام کا تو ایک بڑا مشہور گاؤں ہمارے ملک کے گلگت بلتستان کے ضلع شگر میں ہے۔ اس نے جواباً کہا " نیالی کے بیچز بڑے مشہور ہیں، ممباسا ہی نہیں افریقہ کے امیر ترین لوگ نیالی میں رہتے ہیں"۔ میں سمجھ گیا اور سوچنے لگا کہ نیالی ایسا ہی ایک علاقہ ہو گا جیسے کسی زمانے میں لاہور کے گلبرگ اور ماڈل ٹاؤن ہوا کرتے تھے۔ جیسے اسلام آباد میں بنی گالا اور چک شہزاد ہیں۔ خیر ہم ممباسا کے پرانے ریلوے اسٹیشن پر اترے، سیدھے نیالی گئے اور وہاں ڈیرے لگا لئے۔
نیالی میں بہت ہریالی ہے، یہ سر سبز و شاداب علاقہ ممباسا سے جڑا ہوا ہے، یہاں واقعتاً محلات نما گھر ہیں، خوبصورت اپارٹمنٹس ہیں، جہاں ساحلوں سے آتی ہوئی تیز ہوا، درختوں کے بوسے لیتی ہوئی، رقص کرتے ہوئے بادلوں میں گم ہو جاتی ہے۔ نیالی میں بڑے شاندار بیچز ہیں، جہاں انڈین فلموں کی بہت شوٹنگ ہوتی ہے۔ ان ساحلوں پر بڑے شاندار اور خوبصورت ہوٹلز ہیں، ان بیچز پر آپ کو یورپ سے آئے ہوئے بہت سے سیاح ملیں گے، یہ ساحل بھی تو بحیرہ ہند کے ہیں، اس لئے یہاں ایسے درخت نظر آئے جیسے سری لنکا میں کولمبو اور ایکوا ڈوا نامی ساحلی شہروں میں نظر آتے ہیں۔ یہاں ناریل بھی نظر آئے، نیالی میں پہلی شام ساحلوں کی تیز ہواؤں سے باتیں کرتے گزر گئی۔ ممباسا میں اگلے تین روز کیسے گزرے، یہ کہانی پھر سہی …مسرور انور کا شعر یاد آ رہا ہے کہ
کیا بتائیں پیار کی بازی، وفا کی راہ میں
کون جیتا کون ہارا، یہ کہانی پھر سہی