• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

قارئین! پاکستان افغانستان کو برادر ملک سمجھتا ہے اسی لئے اس نے ہمیشہ افغانستان اور افغان عوام کے ساتھ اچھا سلوک کیا لیکن یہ ایک نہایت افسوس ناک بات ہے کہ افغانستان میں ایسے افراد اور گروہ قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں جو پاکستان کے خیر خواہ نہیں۔ مزید تکلیف دہ بات یہ ہے کہ بھارت جیسے شر پسند ملک کے ساتھ ملکر یہ افراد اور گروہ نہ صرف پاکستان کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں بلکہ ایسی کارروائیاں بھی کرتے ہیں جن کے ذریعے پاکستان کے معصوم عوام کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ یہ سب کسی بھی صورت برداشت نہیں کیا جا سکتا۔اب افغان فورسز نے بھارت کے حمایت یافتہ دہشتگرد گروہوں کے ساتھ ملکر پاک افغان سرحد انگور اڈا، باجوڑ، کرم، دیر، چترال اور بارام چاہ کے مقامات اور بلوچستان کے سرحدی علاقے چاغی میں فائرنگ کی جسکے جواب میں پاک فوج نے فوری رد عمل دیتے ہوئے متعدد افغان پوسٹوں کو موثر طریقے سے نشانہ بنایا۔ بھاری نقصانات کے باعث متعدد افغان پوسٹیں خالی ہوگئیں۔ افغان فوجی لاشیں، یونیفارم اور ہتھیار چھوڑ کر فرار ہوگئے۔ آئی ایس پی آر کا کہنا ہے کہ افغان جارحیت پر پاکستانی ردعمل کو پاکستان اور افغانستان کے عوام کے درمیان جنگ تصور نہ کیا جائے۔ جوابی حملہ صرف دہشتگرد ٹھکانوں اور تربیتی مراکز پر ہوگا۔ جارحیت افغان عبوری حکومت، طالبان اور خوارج کی جانب سے مسلط کی گئی۔ افغان جارحیت مبینہ طور پر بھارت کی مالی معاونت سے کی جا رہی ہے اور دہشتگرد عناصر پاکستان کے خلاف جنگ کو ہوا دے رہے ہیں۔اس سلسلے میں یہ ایک قابلِ غور حقیقت یہ ہے کہ افغانستان نے پاکستان پر حملہ عین اس وقت کیا جب افغان وزیر خارجہ امیر خان متقی بھارت کے دورے پر موجود ہیں اور وہاں پاکستان مخالف بیانات کو مشترکہ اعلامیوں کی شکل دی جا رہی ہے۔ ایسے نازک موقع پر جب افغانستان کے ایک اہم نمائندے کی طرف سے پاکستان کے ازلی حریف ملک کا دورہ جاری ہے اس طرح کا حملہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک گھناؤنی سازش کی طرف اشارہ ہے جو پاکستانی عوام کو بخوبی سمجھ لینا چاہیے۔ اس صورتحال سے واضح ہوتا ہے کہ کس طرح دشمنی کے پرانے خطوط پر ایک نیا حربہ آزمایا جا رہا ہے اور یہ حملہ اس پیغام کا حصہ ہے جو پاکستان کے دشمن دینا چاہتے ہیں، لہٰذا ہمیں اس صورتحال کو اسی تناظر میں دیکھتے ہوئے اپنی یکجہتی اور دفاعی عزم کو مزید مضبوط کرنا ہو گا۔اس نہایت ناخوشگوار صورتحال میں خوش آئند بات یہ ہے کہ افغان حملوں کے خلاف خیبر پختونخوا کے عوام متحد ہو گئے اور انہوں نے پاک فوج سے اظہار یکجہتی کیلئے مختلف علاقوں میں ریلیاں نکالیں۔ علاوہ ازیں، قبائلی عوام نے افغانستان کی جانب سے خیبر پختونخوا میں دراندازی کرنیوالے دہشتگردوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے کا اعلان کر دیا ۔ لنڈی کوتل بازار میں پاک فوج کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے ایک بڑی ریلی نکالی گئی جس میں ہر مکتب فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے شرکت کی اور پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہونے کے پختہ عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاک فوج نے موثر طریقے سے افغانستان کو جواب دیا۔ قبائلی عمائدین نے میاں منڈی بازار مہمند میں پاک فوج کے حق میں مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ افغانستان نے بھارت کے ایما پر پاکستان پر حملہ کیا جس کی بھرپور مذمت کرتے ہیں۔ بھارت ہمارا دشمن ملک ہے اور جو بھی اس کیساتھ ہوگا اس کو بھرپور جواب دیا جائے گا۔ ہنگو میں بھی سول سوسائٹی کی جانب سے افواج پاکستان کے حق میں ریلی نکالی گئی۔ اسی طرح، گوادر میں مہرین ڈرائیو پر بھی شہریوں نے پاک فوج سے اظہار یکجہتی کیا۔ادھر، ایران نے پاکستان اور افغانستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ثالثی کی پیشکش کی ہے۔ ایرانی وزارتِ خارجہ کا کہنا ہے کہ تہران دونوں ممالک کے درمیان امن اور استحکام کیلئے تعاون کرنے کو تیار ہے۔ پاکستان کیلئے اپنی سالمیت،دفاع اور استحکام کسی بھی شے سے زیادہ عزیز ہے،اس کی کوئی بھی قیمت ادا کرنی پڑے کم ہے۔ افغانستان کے ساتھ پاکستان کا تعلق ہمیشہ سے برادرانہ،مشفقانہ اور احسان کا رہا ہے، پاکستان نے ہمیشہ افغان حکومت کے ناز اٹھائے،افغان شہریوں کی جانب سے دہشتگردی میں ملوث ہونے پر بھی بار بار احتجاج اور رابطے کا راستہ اختیار کیا۔بھارت کے ساتھ مئی میں ہونے والی جنگ کے دوران بھی طالبان حکومت نے پاکستان کے خلاف بھارت سے تعلق نبھانے کی بات کی،ملا ابراھیم صدر نے دہلی کا خفیہ دورہ کیا،یقین دہانیاں کروائیں،اسکے باوجود پاکستان نے جون میں طالبان کی جانب سے دہشتگردی کے خلاف کارروائیوں کے وعدے پر اعتبار کیا،جو ایک ماہ بعد ہی تحلیل ہوگیا،لیکن آخر کب تک؟گزشتہ 4برس میں دہشتگردی کے خلاف کوئی بھی وعدہ چند ہفتوں سے زیادہ نہیں چل سکا۔وجہ صاف ظاہر ہے کہ ٹی ٹی پی دہشتگردوں کی قیادت طالبان کے بعض ذمہ داران کے قریب ہے اور انکا ہر وعدہ فریب نظر کے سوا کچھ نہیں۔اب جبکہ اقوام متحدہ سے لیکر روس اور چین تک دہشتگردی کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں تو پاکستان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا ہے۔ایک جانب طالبان دہشتگردی کی سرپرستی ترک کرنے کو تیار نہیں تو دوسری جانب بھارت کیساتھ پینگیں بڑھاتے ہوئے کشمیر جیسے عالمی سطح پر متنازعہ خطے کو بھارت کا حصہ مان کر پاکستان دشمنی کا اعلان کر رہے ہیں۔ایسے میں یہ وارننگ ضروری ہے کہ اگر باز نہ آئے تو دہشتگردی کے خلاف کارروائی جاری رہے گی۔ہم سمجھتے ہیں کہ طالبان کو سمجھ لینا چاہئے کہ پاکستان بھارت سے نمٹنے کی صلاحیت رکھتا ہے،دہشتگردوں کو بھی ہینڈل کرلے گا۔اب بھی وقت ہے کہ طالبان پاکستان سے بات چیت کا راستہ اختیار کریں اور دہشتگردوں کی حمایت ختم کر دیں، اگر ایسانہ کیا گیا تو کل یہ دہشتگرد خود طالبان کیخلاف استعمال ہونگے اور انکی کوئی مدد کرنیوالا نہیں ہوگا،پاکستان تو قطعی نہیں۔

تازہ ترین