• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ڈاکٹر طاہر القادری کے پاکستان آنے سے یہاں کے ادا س سیاسی موسم میں رونق سی آگئی ہے۔ وہ پانچ گھنٹے تک لاہور ایئرپورٹ پر ایک غیرملکی ایئرلائن کے طیارے میں بیٹھے لاہور کے کورکمانڈر کو بلانے کا مطالبہ کرتے رہے کہ وہ انہیں اپنی حفاظت میںایئرپورٹ سے باہر لے جائیں۔ اس دوران وہ نوازشریف اور شہبازشریف کو ہٹلر، مسولینی اور اس کے علاوہ بہت کچھ کہتے رہے مگربالآخر انہی ہٹلر اور مسولینی کے قریبی رفیق گورنرپنجاب چوہدری محمد سرورکی کار میں بیٹھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ انہوں نے حکومت بلکہ ریاست پر جو مہربانی فرمائی بقول ان کے وہ یہ کہ اگروہ اپنے کارکنوں کو حکم دیتے تو وہ اسلام آباد ایئرپورٹ پر قبضہ کرلیتے۔ اس سے ایک نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کے کارکنوں نے اسلام آباد پولیس کے اہلکاروں پر جو تشدد کیا وہ اپنے اس عظیم قائد کے حکم پر ہی کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نظام کی تبدیلی کی بات کرتے ہیں اور نظام کے محافظوں ہی کو اپنا محافظ بھی سمجھتے ہیں۔چنانچہ انہی کے ساتھ اپنے گھر روانہ ہوئے البتہ اس دفعہ انہوں نےایک مہربانی اورکی کہ اپنی تقریر کے دوران اسلام آباد میں لگائے گئے اپنے سابقہ تھیٹر کے ڈائیلاگ نہیں دہرائے یعنی میں وزیراعظم اور وزرائے اعلیٰ کو معزول کرنے کا حکم جاری کرتاہوں وغیرہ وغیرہ البتہ کینیڈا سے دوبئی پہنچ کر ایئرپورٹ لائونج میں اخبارنویسوں سے گفتگوکرتے ہوئے حکمرانوں کے حوالے سے یہ وعید ضرور سنائی کہ میرے پاکستان پہنچتے ہی یہ لوگ خودبخود بھاگ جائیں گے، جب ان کے جہازکو اسلام آباد کی بجائے لاہور لینڈنگ کرائی گئی تو ان سے ایک رپورٹر نےپوچھا کہ پاکستان کے حکمران توآپ کے حکم پر بھاگے ہی نہیں تو انہوں نے جواب دیا ’’اپنے کارکنوں کے حوصلے بلند رکھنے کے لئے ایسی باتیں کرنا ہی پڑتی ہیں!‘‘
اورہاں حکومت کو اس امر کی داد دینا چاہئے کہ انہوں نے اس بار بگلے کو پکڑنے کے لئے کسی بزرجمہر کا وہ نسخہ نہیں آزمایا کہ ایک موم بتی لائی جائے،اسے جلایا جائے اور پھراسے بگلے کے سر پر رکھ دیا جائے۔ موم بتی جب پگھلے گی تو یہ موم بگلے کی آنکھوں میں آئے گی جس سے وہ اندھا ہو جائے گااور یوں اسے بآسانی پکڑا جاسکے گابلکہ اس کی بجائے پنجاب حکومت نے اس ’’بگلے‘‘ کو پکڑنے کے کام پر گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کو مامور کردیااور خود ڈاکٹرصاحب کو بھی اس پر کوئی اعتراض نہیں تھابلکہ ان کی خواہش تھی کہ صیاد ان کی مرضی کا ہوناچاہئے۔ اس مرتبہ وزارت ِ اطلاعات بھی پوری طرح سرگرم عمل نظر آئی۔ بہت بامعنی اشتہارات اخبارات میں شائع ہوئے، ٹی وی چینلز سے نشرہوئے، پرویز رشید خود بھی چینلز پر پوری طرح ’’اِن ایکشن‘‘نظرآئے۔ ان چینلز نے بھی بہت ذمہ داری کا مظاہرہ کیا۔ ڈاکٹرصاحب کے انقلاب کی حیثیت سیاسی تجزیہ نگاروں نے اخبارات اورچینلز پرمدلل طریقے سے عوام پر واضح کی۔ اوریوں قوم ایک بہت بڑے سیاسی انتشارسے بچ گئی۔ لگتا ہے اس دفعہ ساری پلاننگ سیاستدانوں کی تھی۔ بیوروکریسی سے بھی مشاورت ہوئی ہوگی جوہونا بھی چاہئے تاہم سیاسی طور طریقے غالب رہے۔ میں تقریباً یقین سے کہہ سکتاہوں کہ طاہرالقادری صاحب کو کسی خفیہ ہاتھ کی حمایت بھی حاصل نہیں ہوسکی۔ اگرچہ انہوں نےباربار یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ فوج ان کےساتھ ہے مگر اس کی عملی شکل کہیں نظر نہیں آئی۔ خدا کرے سیاستدانوں اور ہماری فوج کی یہ فراست آئندہ بھی قائم و دائم رہے ۔
اور ایک بات جو مجھے بالکل سمجھ نہیں آئی۔ وہ طاہر القادری صاحب ہی کے حوالے سے ہے۔ میرامن کے ناول باغ و بہار میں جب چوتھا درویش رات گزرنے پر صبح لونڈی کو ’’غسل‘‘ کے لئے پانی گرم کرنے کوکہتا ہے تو وہ جل کرکہتی ہے ’’کس برتے پر تتا (گرم) پانی؟‘‘ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب نے بھی کیا کیا ہے جو عوام ان کو قائد انقلاب تسلیم کرکے ان کے پیچھے چلیں۔ پارلیمینٹ میںان کی کوئی نمائندگی نہیں،وہ ایک مذہبی سکالر ہیں اور مسلمانوں کا کوئی مکتب ِ فکر ان کے افکارِ عالیہ اورخواب ہائے گراں مایہ کا قائل نہیں۔ بریلوی مکتب فکر کے حامل مسلمانوں کی تعداد پاکستان میں تمام مکاتب ِ فکر سے زیادہ ہے۔ وہ ان کے ساتھ نہیں ہیں۔ تبلیغی جماعت کے اجتماع میں لاکھوںافراد شریک ہوتے ہیں۔ ان کا ڈاکٹرصاحب سے کوئی تعلق نہیں۔ دیو بندی مکتب فکر سے بھی عوام کی بہت بڑی تعداد وابستہ ہے۔ وہ بھی ان کی حامی نہیں۔ اہل حدیث بھی ان کو نہیں مانتے ۔مدنی جماعت اور اس طرح کی دوسری مذہبی تنظیمیں ان سے کسی قسم کا تعلق نہیں رکھتیں۔ عام لوگ بھی ڈاکٹر صاحب کے پیچھے نہیں ہیں۔ مذہبی جماعتوں کے سیاسی رہنمائوںمیں سے کون ہے جو ان کے ساتھ کھڑا ہونا چاہتاہے؟ عمران خان سے ہزار اختلاف سہی مگروہ بہرحال ایک سیاسی قوت ہیں اور موجودہ حکومت کے سخت خلاف ہیں لیکن انہوں نے بھی ڈاکٹر صاحب کو اکیلا چھوڑ دیا۔ اور یوں اگر دیکھا جائے تو ڈاکٹر صاحب کی ٹوٹل طاقت ان کے وہ مریدین ہیں جن کی اکثریت بہت بھلے مانس اورخود سے اختلاف رکھنے والوں سے بھی محبت کرنے والی ہے۔ اٹھارہ کروڑ کی آبادی میں یہ کتنے لوگ ہوںگے دس لاکھ؟ یا کم و بیش ! تو ڈاکٹرصاحب آخر کس برتے پر عوام کو پانی گرم کرنے کاحکم دیتے رہتے ہیں؟
میرے اس سوال کا جواب امریکہ میں مقیم ایک غیرسیاسی پاکستانی سائیکاٹرسٹ نے اپنےایک دوست کے نام ای میل کے ذریعے دیا ہے۔ اس کے مطابق ڈاکٹر صاحب ’’غیرمتوازن‘‘ہیں اور شدید قسم کی بیماری کا شکار ہیں۔یہ خود پسندی (Delusions of Grandeur) کا شکار ہوتے ہیںاور ان کی یہ بیماری اپنے علاوہ دوسروں کو بھی شدید نقصان پہنچانےکا باعث بن سکتی ہے۔ ڈاکٹرصاحب نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ کہیں طاہر القادری کا مرض قوم کو نقصان پہنچانے کا باعث نہ بنے۔ ڈاکٹرصاحب کا کہنا ہے کہ پیشتراس کے کہ یہ مریض قوم کوکوئی سخت نقصان پہنچائے کسی ماہر نفسیات سے اسے ’’ٹیکل‘‘کرنے کے حوالے سے مشورہ کرنا چاہئے۔ یہ میل انگریزی میں ہے اور اس میں درج اصلاحات کا اردو ترجمہ ممکن نہیں۔ اگر کیابھی گیا تو وہ انگریزی سے بھی زیادہ مشکل ہو گا۔ چنانچہ آخر میں یہ ای میل نقل مطابق اصل درج کر رہا ہوں۔
He is a classic case of Bipola Affective Disorder. This is a mental condition marked by hypomania followed by depression. During the hypomania stage the patient has excessive energy, delusions of grandeur, pressure of speech and lack of insight. This stage can last from few days or weeks to several months. Sometimes for years. During this phase the patient can harm himself or others. In this case I am afraid he may harm the entire nation. Then the patient passes into a state of depression. The energy and motivation goes away and the patient essentialy regresses below his baseline mood .
I recommend seeking the advice of a clinical psycholgist to see how to tacke this patient (Mr. Tahir-ul-Qadri) before he harms Pakistan.
تازہ ترین