گزشتہ دنوں امریکی ملٹی نیشنل کمپنی پراکٹر اینڈ گیمبل (P&G) نے پاکستان میں اپنی مینوفیکچرنگ اور ٹریڈنگ سرگرمیاں بند کرنے کا اعلان کیا۔ اس سے پہلے بھی گزشتہ تین سال کے دوران متعدد ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں اپنے آپریشنز بند کرچکی ہیں جن میں ایلی للی، شیل، مائیکرو سافٹ، اوبر، یاماہا،Pfizar، ٹوٹل انرجی، ٹیلی نار، سنوفی، Aventis اور بائرز قابل ذکر ہیں۔ پراکٹر اینڈ گیمبل 1991ءسے پاکستان میں صابن، سرف، لوشن، ڈیٹرجنٹ پائوڈر اور دیگر مصنوعات کی مینوفیکچرنگ اور سپلائی کررہی تھی۔ اسی دوران پاکستان کی ٹیکسٹائل کی سب سے بڑی کمپنی گل احمد نے بھی ملک میں اپنے ایپرل اور گارمنٹس مینوفیکچرنگ ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ان کمپنیوں کے بند ہونے سے جہاں حکومت کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہوگا، وہاں بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔ ایک صنعتکار ہونے کے ناطے مجھے ان کمپنیوں کے آپریشنز بند ہونے کی وجوہات کا بخوبی علم ہے جن میں پاکستان میں توانائی کا بحران، بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ، ٹیکسوں کی بھرمار، روپے کی قدر میں کمی، بینکوں کے بلند شرح سود، پالیسیوں کا عدم تسلسل، ڈالر میں منافع ملک سے باہر لیجانے میں مشکلات، خام مال کی امپورٹ میں دشواریاں اور پیداواری لاگت میں اضافہ وہ وجوہات ہیں جن کے باعث ملک میں کاروبار کرنا مشکل ہوتا جارہا ہے۔
پراکٹر اینڈ گیمبل، پاکستان میں اپنی فیکٹری اور تجارتی سرگرمیاں بند کرکے تھرڈ پارٹی ڈسٹری بیوٹر کے ذریعے صارفین کو اپنی مصنوعات فراہم کرے گی جس کا مطلب P&G کی بندش سے سینکڑوں افراد کا بیروزگار ہونا ہے۔ ہم SIFC کے ذریعے معدنیات، انفراسٹرکچر، توانائی، پورٹس اور ایئر پورٹس میں نئی سرمایہ کاری لانے کیلئے چین، سعودی عرب، یو اے ای، آذربائیجان اور دیگر ممالک سے مذاکرات کررہے ہیں جو پاکستان کے جغرافیائی محل وقوع، وسط ایشیائی ریاستوں کے روٹس، معدنی ذخائر تانبے، سونے اور کوئلے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن ہر بزنس کا بنیادی مقصد منافع کمانا ہوتا ہے اور اگر حکومت کی پالیسیوں سے یہ منافع ختم ہوجائے تو بزنس کرنے کا جواز نہیں رہتا۔ یہی کچھ ان ملٹی نیشنل کمپنیوں کیساتھ ہوا جو ان کے پاکستان میں آپریشن بند کرنے کا سبب بنا۔ اس صورتحال میں پاکستانی مصنوعات چین، ویت نام، بنگلہ دیش اور کمبوڈیا جیسے علاقائی حریفوں سے مقابلہ نہیں کرسکتیں جن کی پیداواری لاگت ہم سے کم ہے اور ان ممالک کی غیر ملکی سرمایہ کاری کے حصول کیلئے پالیسیاں ہم سے زیادہ پرکشش اور مددگار ہیں۔ ان تمام کمپنیوں کے بند ہونے کی مشترکہ وجہ پاکستان کا غیر منصفانہ اور جارحانہ ٹیکس نظام ہے۔ ایف بی آر کی جانب سے نئے ٹیکس دہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے بجائے موجودہ ٹیکس دہندگان پر ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ دنیا میں کہیں بھی اتنے ٹیکس نہیں لئے جاتے جتنے پاکستان میں لئے جاتے ہیں۔ ایک کارپوریٹ کمپنی کو 39فیصد اسٹینڈرڈ کارپوریٹ ٹیکس دینا پڑتا ہے، اس کے علاوہ 500 ملین روپے منافع پر 10فیصد سپر ٹیکس، 2فیصد ورکرز ویلفیئر کنٹری بیوشن (WWF)، 5فیصد ورکرز پرافٹ پار ٹی سیپشن (WPPF)، 0.5 فیصد سے 2 فیصد تک مختلف لیویز، ایف بی آر کی جانب سے منافع ہونے یا نہ ہونے کی صورت میں ہر سہ ماہی ایڈوانس ٹرن اوور ٹیکس اور 1.25 فیصد کم از کم ٹرن اوور ٹیکس کی ڈیمانڈ شامل ہیں۔ یہ سب ٹیکسز ملا کر تقریباً 60 فیصد سے زیادہ بنتے ہیں جو کوئی کمپنی برداشت نہیں کرسکتی۔ مثال کے طور پر اگر کسی کارپوریٹ کمپنی نے سالانہ 60 کروڑ روپے منافع کمایا ہے تو اسے مختلف ٹیکسوں کی مد میں 28 کروڑ روپے سے زائد حکومت کو ٹیکس ادا کرنا ہوگا۔
پاکستان میں اس وقت 5.2 ملین سے زائد چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں (SMEs) رسمی اور غیر رسمی شعبوں میں کام کررہی ہیں جن کا جی ڈی پی میں 40 فیصد اور روزگار کی فراہمی میں 30 فیصد حصہ ہے۔ یہ SMEs بھی حکومتی پالیسیوں کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں اور ملک کا صنعتی سیکٹر سکڑ رہا ہے۔ حکومت کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ساتھ ساتھ مقامی سطح پر SMEs اور بڑے درجے کی صنعتوں (LSM) بالخصوص ٹیکسٹائل صنعت کو بحال کرنے کیلئے ملک میں کپاس کی پیداوار میں اضافہ کرنا ہوگا جو سالانہ 13 ملین بیلز سے کم ہوکر 5 ملین بیلز پر آگئی ہے اور ٹیکسٹائل صنعت کو بیرون ملک سے کاٹن امپورٹ کرنا پڑرہی ہے جو نہ صرف مہنگی پڑتی ہے بلکہ ملکی زرمبادلہ کے ذخائر پر ایک بڑا بوجھ ہے۔ معروف ٹیکسٹائل کمپنی کے مطابق فرسودہ زرعی طریقوں، ناقص بیج اور ریسرچ کی کمی نے کپاس کی فصل کو بری طرح نقصان پہنچایا ہے۔ کپاس میں آلودگی کی وجہ سے مقامی کپاس سے عالمی معیار کا کاٹن یارن اور فیبرک تیار کرنا دشوار ہوگیا ہے۔ اس کے علاوہ حکومت کو معاشی پالیسیوں کے تسلسل کو بھی یقینی بنانا ہوگا جو غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے کیلئے اشد ضروری ہے۔ میری حکومت کو تجویز ہے کہ وہ ملک میں نئی سرمایہ کاری لانے کے ساتھ ساتھ موجودہ کمپنیوں کی مقابلاتی سکت برقرار رکھے، بجلی گیس کے نرخوں، بینکوں کے بلند شرح سود اور ٹیکسوں کی شرح کو مقابلاتی بنایا جائے جسکی وجہ سے غیر ملکی کمپنیوں کا پاکستان میں بزنس کرنا اب منافع بخش نہیں رہا۔ اس سلسلے میں وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب اور وفاقی وزیر تجارت جام کمال کو تجویز ہے کہ وہ اوورسیز انویسٹرز چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (OICCI) جو پاکستان میں ملٹی نیشنل کمپنیوں کی نمائندہ تنظیم ہے، سے قریبی رابطے میں رہیں تاکہ غیر ملکی کمپنیوں کی بندش سے پہلے ان کے مسائل حل کئے جاسکیں۔