• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک بار مشاعرہ ہورہا تھا۔ ایک مسلم الثبوت استاد اُٹھےاورطرح کا ایک مصرع دیا۔ ؎ ’’چمن سے آرہی ہے بوئے کباب۔‘‘ بڑے بڑے شعراء نے طبع آزمائی کی، لیکن کوئی گرہ نہ لگا سکا۔ اُن میں سے ایک شاعر نے قسم کھا لی کہ جب تک گرہ نہ لگائیں گے، چین سے نہ بیٹھیں گے۔ 

چناں چہ وہ ہر صُبح دریا کنارے نکل جاتے اور اونچی آواز سے الاپتے۔ ؎ چمن سے آرہی ہے بوئے کباب۔ ایک روز اُدھر سے ایک کم سِن لڑکا گزرا، جوں ہی شاعر نے یہ مصرع پڑھا۔ وہ لڑکا بول اُٹھا۔ ؎ کسی بلبل کا دل جلا ہوگا۔ شاعر نے بھاگ کر اُس لڑکے کو سینے سے لگالیا۔ بعدازاں، یہی لڑکا بڑا ہو کر جگر مُراد آبادی کے نام سے مسلم الثبوت استاد بنا۔

…٭٭……٭٭……٭٭…

پطرس بخاری کو کسی عزیز کا نکاح پڑھوانا تھا، اُس کے لیے مولوی صاحب درکار تھے۔ تلاش بسیار کے بعد ایک صاحب ڈھونڈ کے لائےگئے، جو بہت دُبلے پتلےسے تھے۔ پطرس صاحب اُنھیں دیکھ کر بےساختہ بولے۔ ’’نکاح کےلیے دوچیزوں کی اشد ضرورت ہوتی ہے۔ ایک نکاح خواں کی اور دوسرے چھوہارے کی۔ ماشاءاللہ موصوف میں دونوں صفات موجود ہیں۔‘‘

…٭٭……٭٭……٭٭…

ایک روز مرزا غالب کے شاگرد میرمہدی مجروح اُن کےمکان پرآئے۔ دیکھا کہ مرزا صاحب پلنگ پر پڑے کراہ رہے ہیں۔ یہ اُن کے پائوں دابنے لگے۔ مرزا صاحب نے کہا۔ ’’بھئی، تُو سیّدزادہ ہے، مجھے کیوں گناہ گار کرتا ہے؟‘‘میر مہدی مجروح نہ مانے اور کہا کہ’’ آپ کو ایسا ہی خیال ہے، تو پیر دابنے کی اُجرت دے دیجیے گا۔‘‘

مرزا صاحب نے کہا۔ ’’ہاں، اِس میں مضائقہ نہیں۔‘‘ جب وہ پیر داب چُکے تو ازراہِ مزاح مرزا صاحب سے اُجرت مانگی۔ مرزا صاحب نے کہا کہ ’’بھیا! کیسی اُجرت…؟‘‘تم نے میرے پاؤں دابے، مَیں نےتمھاری پیسے دابے، حساب برابر ہوگیا۔‘‘

…٭٭……٭٭……٭٭…

اخبار ’’وطن‘‘ کے ایڈیٹر مولوی انشاء اللہ خان، علامہ اقبال کے ہاں اکثر حاضر ہوتے تھے۔ اُن دِنوں علامہ انارکلی بازار میں رہتے تھے اور وہیں طوائفیں بھی آباد تھیں۔ بعدازاں، میونسپل کمیٹی نے اُن کے لیے دوسری جگہ تجویز کی، چناں چہ اُنہیں وہاں سےاُٹھادیا گیا۔ اُس زمانے میں مولوی انشاء اللہ خان کئی مرتبہ علامہ سے ملنے گئے، لیکن ہر مرتبہ یہی ہوا کہ علامہ باہر گئے ہوئے ہیں۔ 

اتفاق سے ایک دن گھر پر مل گئے۔ مولوی صاحب نے ازراہِ مذاق کہا۔ ’’ڈاکٹر صاحب! جب سے طوائفیں اُٹھوا دی گئی ہیں، آپ کا دل بھی یہاں نہیں لگتا۔‘‘علامہ نے جواب دیا۔ ’’مولوی صاحب! کیا کیا جائے، وہ بھی تو’’وطن‘‘ کی بہنیں ہیں۔‘‘ مولوی صاحب اس بذلہ سنجی پر کٹ کے رہ گئے۔ (مرتّب: جاوید جواد حسین، گلشن اقبال، کراچی)

سنڈے میگزین سے مزید