• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شیراز عالم مری، کوہلو

یوں تو ناکافی تعلیمی بجٹ اورکم وسائل کے باعث پاکستان بَھر کے سرکاری تعلیمی اداروں کی صُورتِ حال خاصی دِگرگُوں ہے اور والدین اپنے بچّوں کو معیاری تعلیم دِلانے کی خواہش میں نجی اسکولز کو بھاری بھرکم فیسیں ادا کرنے پر مجبور ہیں، لیکن صوبۂ بلوچستان کے پس ماندہ ترین اضلاع میں سے ایک ضلع کوہلوکو اس وقت سنگین تعلیمی بُحران کاسامنا ہے۔ 

اس ضلعےکا تعلیمی نظام گوناگوں مسائل سے دوچار ہے۔ ناکافی انفرااسٹرکچر، اساتذہ کی کمی و عدم حاضری اور وسائل کی قلّت سمیت دیگر مسائل کے سبب ضلعے کے ہزاروں بچّے معیاری تعلیم کے حق سے محروم ہیں۔ پاکستان ڈسٹرکٹ ایجوکیشن رینکنگ 2017ء کے مطابق، ضلع کوہلو تعلیمی اسکور انڈیکس کے لحاظ سے مُلک کے 141اضلاع میں 116ویں نمبر پرہے۔ یہاں شرحِ خواندگی محض 32فی صد ہے، جب کہ صرف 12فی صد خواتین پڑھ اور لکھ سکتی ہیں۔

ضلع کوہلو میں تعلیمی نظام کی ابتری کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں قائم اسکولز میں سے 91فی صد پرائمری اسکولز ہیں،چند ایک ہی مڈل اور ہائی اسکولز موجود ہیں، جب کہ پورے ضلعے میں صرف ایک سرکاری کالج ہے، جو دو لاکھ کی آبادی والے ضلعے سے سخت ناانصافی کے مترادف ہے۔ 

دوسری جانب ضلع کوہلومیں کوئی یونی ورسٹی ہے اور نہ کوئی سب کیمپس، جس کی وجہ سے ضلعے کے ہزاروں غریب طلبہ انٹرمیڈیٹ کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں۔ ضلعے میں لڑکیوں کی تعلیم تک عدم رسائی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے اور اس کا سبب لڑکیوں کے اسکولز کی ناکافی تعداد ہے۔ ضلعے بَھر میں قائم لڑکیوں کےاسکولز کا تناسب 20 فی صد ہے، جس کی وجہ سے مقامی طالبات کی تعلیم تک رسائی ایک مشکل اَمر ہے اور اسی سبب ضلعے میں خواتین کی شرحِ خواندگی بھی کم ہے۔ علاوہ ازیں، مقامی اسکولز میں بجلی، بیت الخلا اور پینے کےصاف پانی جیسی بنیادی سہولتوں کی کمی بھی ایک بڑا مسئلہ ہے، تو اس ناسازگار ماحول میں طلبہ کے لیے تعلیم حاصل کرنا مزید مشکل ہوجاتا ہے۔

مذکورہ بالا مسائل کے سبب ضلع کوہلو کی نئی نسل کا مستقبل خطرات سے دوچار ہے، کیوں کہ حصولِ تعلیم کے لیے درکار بنیادی سہولتوں کے سبب بچّے صلاحیتوں کے اظہار کے مواقع سے محروم ہیں۔ نتیجتاً، وہ جدید دُنیا کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر نہیں چل سکتے، جہاں تعلیم ہی کو کام یابی کی کُنجی سمجھا جاتا ہے۔ 

لہٰذا، حکومت کو چاہیےکہ وہ کوہلومیں جاری تعلیمی بُحران سے نمٹنے کے لیےفوری ایکشن لے اور تعلیمی نظام میں سرمایہ کاری کرنے کے ساتھ مزید اساتذہ بھی بھرتی کرے۔ نیز، اساتذہ کی جدید خطوط پر تربیت کا اہتمام کیا جائے اور طلبہ کو وہ تمام وسائل اور سہولتیں فراہم کی جائیں کہ جو بڑے شہروں کےاسکولزکومیسر ہیں۔ 

نیز، لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے بھی خصوصی اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ حقیقتاً یہ ہماری اجتماعی ذمّے داری ہے کہ ضلع کوہلو کے بچّوں کو حصولِ تعلیم کے وہ تمام مواقع فراہم کیےجائیں، جن کے وہ مستحق ہیں۔

سنڈے میگزین سے مزید