• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جامعہ کراچی، بس حادثے میں طالبہ کی موت ...

ماہین خان( شعبۂ ابلا غِ عامّہ، جامعہ کراچی)

10 اکتوبر 2025ء کو جامعہ کراچی میں رُونما ہونے والے ایک رُوح فرسا واقعے نے سب کے دل دہلا کر رکھ دیے۔ کراچی کے علاقے، ملیر ناتھا خان کی رہائشی اور جامعہ کراچی کے ڈیپارٹمنٹ، سوشل ورک کی طالبہ، انیقہ سعید یونی ورسٹی کے پوائنٹ سے اُترتے ہوئے اُسی کے نیچے آکر کُچلی گئی اور موقعے ہی پر دَم توڑ گئی۔

عینی شاہدین کے مطابق مذکورہ طالبہ نے چلتی بس سے اُترنے کی کوشش کی، جب کہ جائے وقوع پر موجود بعض افراد کا کہنا ہے کہ طالبہ کے پوائنٹ سے اُترتے ہی ڈرائیور نے ریورس گیئر لگا دیا اور وہ بس کے پچھلے ٹائر کی زد میں آگئی۔ اس ہول ناک واقعے کے بعد غم و غصّے میں مبتلا جامعہ کے طلبہ نے شدید احتجاج کیا اور اس دوران وائس چانسلر سے واقعے کی تحقیقات اور ڈرائیور کی معطّلی کا مطالبہ کیا، جو منظور کرلیا گیا۔ نیز، واقعے کی تحقیقات کے لیے جامعہ میں ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی۔

جامعہ کراچی میں مذکورہ بالا الم ناک واقعے کے بعد طلبہ، بالخصوص طالبات میں شدید خوف و ہراس پایا جاتا ہے اور طالبہ کی موت کے واقعے نے یونی ورسٹی میں زیرِ تعلیم طلبہ کی سلامتی و تحفّظ پر ایک سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ واضح رہے کہ جامعہ کراچی میں پوائنٹس کی وجہ سے حادثات کا پیش آنا کوئی نئی بات نہیں۔

اس دیرینہ مسئلے پر ہر سال مختلف نیوز چینلز پر بے شمار نیوز پیکیجز آن ایئر اور اخبارات میں اَن گنت مضامین شائع ہوتے ہیں، جن میں حکومت اور جامعہ کی انتظامیہ کو خُوب جھنجھوڑا بھی جاتا ہے، لیکن جواباً زبانی کلامی دعوئوں کے بعد یونی ورسٹی کے معمولات اپنی پُرانی ڈَگر پر واپس آ جاتے ہیں، یعنی طلبہ کی زندگیاں داؤ ہی پر لگی رہتی ہیں۔

اس بات سے قطع نظر کہ انیقہ کے گاڑی تلے آکر کُچلے جانے کا سبب کیا تھا، آج اس کے والدین اپنی جوان بیٹی کی موت کا سوگ منا رہے ہیں۔ ذرا سوچیے کہ اپنی بیٹی کی موت کی خبر سُنتے ہی اُس بے چاری ماں پر کیا گزری ہوگی، جس نے اُسے صبح سویرے اپنی آنکھوں میں اُس کے سُنہرے مستقبل کے خواب سجائے گھر سے رخصت کیا تھا اور اُس کی واپسی کی راہ تک رہی تھی۔ 

ہم خود جامعہ کراچی میں زیرِتعلیم ہیں اور انہی پوائنٹس پر سفر کرتے ہیں۔ ہماری والدہ بھی ہمیں روزانہ بڑے مان سے یونی ورسٹی بھیجتی ہیں اور پھر بڑی بے چینی سے ہماری واپسی کا انتظار کرتی ہیں۔ ہمارے لیے تو یہ تصوّر کرنا بھی محال ہے کہ اگر ہم بخیر و عافیت اپنے ڈیپارٹمنٹ نہ پہنچ سکیں۔ اپنے والدین کو بحفاظت پہنچنے کی اطلاع نہ دے سکیں، یہاں تک کہ زندہ سلامت واپس اپنے گھر ہی نہ جاسکیں، تو ہمارے والدین، بہن بھائیوں اور دیگر اہلِ خانہ اُن پر کیا گُزرے گی۔

اب اگر پوائنٹ کے ڈرائیور کی بات کی جائے، تو اُس نے بھی یقیناً جان بوجھ کر طالبہ کو پوائنٹ تلے نہیں کُچلا ہوگا۔ عموماً صُبح کے وقت پوائنٹ کے ڈرائیورز کو تمام طلبہ کو بس سے اُتار کر ڈِپو جانے کی جلدی ہوتی ہے اور وہ تمام سواریوں کے اُترنےکا انتظار بھی کرتے ہیں۔ جب کہ اگرکوئی طالبِ علم کسی جگہ گاڑی روکنے کو کہے، تو وہ روک بھی دیتے ہیں۔ 

بیش تر ڈرائیورز، طلبہ کی بات نہایت تحمّل سے سُنتے ہیں اور خاص طور پر طالبات کو چلتی گاڑی کے سامنے آنے اور اُس سے اُترنے سے سختی سے منع بھی کرتے ہیں، لیکن عام طورپردیکھا گیا ہےکہ طالبات خالی سیٹ حاصل کرنےکی کوشش میں پوائنٹس کےپیچھے بھاگتی ہیں اور اِس دوران عموماً دھکم پیل بھی ہو جاتی ہے۔

بہرکیف، ہماری اس تحریر کا مقصد کسی پر الزام تراشی کی بجائے اس اَمر سےآگاہ کرنا ہے کہ اب جامعہ کراچی میں طلباء و طالبات سخت عدم تحفّظ کا شکار ہیں اور اس سے بھی زیادہ سنگین بات یہ ہے کہ جامعہ کی انتظامیہ اُنہیں تحفّظ فراہم کرنے میں مکمل طور پر ناکام ہو چُکی ہے۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آخر آج جامعہ کراچی اتنی غیر محفوظ کیوں ہو گئی ہے کہ کبھی فائرنگ کے نتیجے میں طلبہ کے زخمی ہونے کے واقعات سامنے آتے ہیں، تو کبھی طلبہ تنظیموں کے مابین خوں ریز تصادم کے۔ 

اِسی طرح کبھی کوئی پوائنٹ کسی طالب علم کو کچل دیتا ہے، تو کبھی پوائنٹ کی بریکس فیل ہوجاتی ہیں اور وہ کسی دُکان میں جا گُھستا ہےاورکبھی یہ اچانک پنکچر ہو جاتے ہیں۔ یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ اس افسوس ناک واقعے کے نتیجے میں ڈرائیور کی معطّلی سےکیا فائدہ ہوگا؟ بلکہ ہمارے خیال میں توالٹا طالبات کو مزید مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

ایک محتاط اندازے کے مطابق، جامعہ کراچی میں اس وقت 54ہزار سے زائد طلبہ زیرِ تعلیم ہیں، جن میں22ہزار سے زائد طالبات ہیں۔ چُوں کہ بیش تر طالبات پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر سے گریز کرتی ہیں، لہٰذا وہ یونی ورسٹی میں آمدورفت کے لیے پوائنٹس ہی کا انتخاب کرتی ہیں اور پوائنٹس کی تعداد کم ہونے کے سبب اُنہیں یونی ورسٹی بسزمیں سوار ہونے کے لیے اپنی جانوں تک کو خطرے میں ڈالنا پڑتا ہے۔ 

سو، مستقبل میں اس قسم کے الم ناک واقعات سے بچنے کے لیے جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو پوائنٹس کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ کرنا چاہیے اور کسی بھی حادثے کی صُورت میں، ڈرائیورز کو معطّل کرنے کی بجائے محفوظ ڈرائیونگ کی تربیت و ترغیب دینی چاہیے۔ جامعہ میں کوئی بھی ناخوش گوار واقعہ رُونما ہونے کے بعد انتظامیہ کی جانب سے واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی کی تشکیل کوئی نئی بات نہیں۔

یونی ورسٹی ایڈمنسٹریشن کی اصل ذمّےداری یہاں زیرِ تعلیم طلبہ، بالخصوص طالبات کی حفاظت، اُنہیں آمدروفت کے لیے بر وقت، محفوظ اورصاف سُتھری گاڑیوں کی فراہمی اور باعزّت طریقے سے گھر سے یونی ورسٹی اور یونی ورسٹی سے گھر پہنچانا ہے۔ انیقہ کی الم ناک موت کے بعد جامعہ کی طالبات خوف میں مبتلا ہیں، کیوں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اب جامعہ کے اندر بھی اُن کی جانیں محفوظ نہیں رہیں۔ 

یاد رہے، کچھ عرصہ قبل جامعہ کراچی کےایک پوائنٹ پرگولی بھی چلائی گئی تھی۔ خوش قسمتی سےاُس کے نتیجے میں کوئی جانی نقصان نہیں ہوا، وگرنہ اسی طرح کا کوئی سنگین نتیجہ بھی سامنے آ سکتا تھا۔ نیز، کچھ عرصہ قبل، قائد آباد کےقریب ایک یونی ورسٹی پوائنٹ ایک دُکان میں بھی جاگُھسا تھا۔ صد شُکر کہ تب بھی تمام طلباء وطالبات محفوظ رہے۔ 

پھر کچھ عرصہ قبل بس ٹرمینل کے قریب ایک طالبہ پوائنٹ سے نیچے گر گئی اور سَر پہ شدید چوٹ لگنے کی وجہ سےکئی روز تک بے ہوش رہی۔ اور… ان تمام واقعات کے باوجود یونی ورسٹی انتظامیہ کے کانوں پر جُوں تک نہیں رینگی۔ یہاں تک کہ انیقہ کی ہلاکت جیسا ہول ناک سانحہ وقوع پذیر ہوگیا۔

اِس وقت جامعہ کراچی کے پاس طلبہ کے لیے تقریباً 25بسز ہیں، جن میں سے نصف چل رہی ہیں، جب کہ ہر نئے تعلیمی سال کے آغاز پر طلبہ کو پوائنٹ رُوٹس کی ایک فہرست دی جاتی ہے، جس کی رُو سے جامعہ کی بسز کی تعداد 30 ہے، لیکن درحقیقت جامعہ میں زیرِتعلیم طلبہ کی تعداد کے اعتبار سے پوائنٹس نہ ہونے ہی کےبرابر ہیں۔ اگراسٹوڈنٹس پوائنٹس کی کمی کی شکایت کرتے ہیں، تو ٹرانسپورٹ یونٹ کی جانب سےبسز خراب یا ڈرائیور نہ ہونےکا بہانہ بنا کر ٹرخا دیا جاتا ہے۔ 

بہرحال، اس افسوس ناک واقعے کے بعد جامعہ کراچی کی انتظامیہ کو پوائنٹس کی تعداد بڑھانے پر سنجیدگی سے غور کرناچاہیے۔ یاد رہے، طلبہ پڑھائی کی وجہ سے اتنا نہیں تھکتے، جتنا سفر کی صعوبتیں اُنہیں تھکا دیتی ہیں۔ دوسری جانب اب جامعہ کےطلبہ کوبھی ہر قسم کے اختلافات سے بالاتر ہو کر کم ازکم اپنی حفاظت کے معاملے پر تو متّحد ہونا ہوگا اور اس مسئلے کو مل کر، شد و مد کے ساتھ اُٹھانا ہوگا۔ 

ہماری جامعہ کراچی کی انتظامیہ سےدست بستہ درخواست ہےکہ ہمارے والدین ہمیں بڑے مان سے گھروں سے تعلیم حاصل کرنے کےلیے یونی ورسٹی بھیجتے ہیں، توخدارا! ہمیں محفوظ ماحول میں تعلیم حاصل کرنے مواقع فراہم کیے جائیں۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ جامعہ کی چار دیواری میں اپنی جان جانے کےخوف سےطلبہ گھروں میں بیٹھ جائیں۔ اگر اب بھی مُلک کی مشہور ترین جامعات میں سے ایک، کراچی یونی ورسٹی کی انتظامیہ اور حکومتِ سندھ نے اپنا ٹرانسپورٹ سسٹم بہتر بنانے پر توجّہ نہ دی، تو خاکم بدہن، کل کوئی اور انیقہ سعید اِن پوائنٹس کی بھینٹ چڑھ سکتی ہے۔

سنڈے میگزین سے مزید