• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسرائیل کے وحشیانہ مظالم سے صحافی بھی محفوظ نہ رہے

نگہت سلطانہ

آپ شہر کے کسی اونچے مقام پر کھڑے ہو کر انسانی آبادیوں پر نظر دوڑائیں، تاحدِّ نگاہ بلند و بالا عمارات ہی دکھائی دیں گی۔ ان میں کُتب خانے، درس گاہیں، عدالتیں، فوجی چھاؤنیاں اور انسانی حقوق کا درس دینے والے اداروں کے دفاتر بھی شامل ہیں۔ ہر مہینے کھربوں کے بجٹ پاس ہوتے ہیں، تب کہیں جا کر ان اداروں کی غرض و غایت پوری ہوتی ہے۔ 

اگر بات کی جائے دفاعی سازوسامان کی، تو ٹینکس، میزائلز، طیّارے، آب دوزیں…اور نہ جانے کیا کچھ ہے جواب تک نہیں بنایا جا چُکا، لیکن اسی سرزمین پر کچھ ایسے ظالم و جابر بھی دندناتے پِھر رہے ہیں کہ جو کسی کے قابو نہیں آتے۔ وہ ہزاروں انسانوں کو گاجر، مولی کی طرح کاٹ ڈالتے ہیں، لیکن اُن کے لیے کوئی توپ، کوئی گولا یا کوئی میزائل حرکت میں نہیں آتا۔

جی ہاں! زمین کا ایک ٹکڑا ایسا بھی ہے کہ جہاں صحافی تک محفوظ نہیں رہے۔ جہاں پچھلے دو برسوں کےدوران سیکڑوں صحافی وحشی درندوں کے ہاتھوں اپنی زندگیوں کی بازی ہار گئے، جن میں ایک نام انس جمال الشّریف کا بھی ہے۔ وہ جواں سال، ہردِل عزیز صحافی، جو ایک گڑیا جیسی بیٹی، پُھول جیسے بیٹے کا باپ بھی تھا، انسانی حقوق کی دُہائیاں اور ترقّی یافتہ، خوش حال، تعلیم یافتہ دُنیا کے ضمیر پر دستک دیتا تھا۔

اُس نے شرق تا غرب گہری نیند میں ڈُوبی اُمّت کو نِدا دی اور عالمِ اسلام کے بےحِس حُکم رانوں کو فلسطینی مسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا احساس دلایا۔ کیمرے اور مائیک کےعلاوہ اُس کا کُل اثاثہ اُس کی جان تھی، جسے وہ ہتھیلی پہ لیے پھرتا تھا۔ اور… اُس نے اپنی جان، جانِ آفریں کے سُپرد کردی، مگر اپنے کام میں ذرّہ برابر خیانت نہیں کی۔ 10 اگست 2025ء کو اُن قابض صیہونی فورسز نے اُس سے جینے کا حق چھین لیا، جو گزشتہ 78 برس سے عالمی طاقتوں کی ایما پر فلسطین پر قابض ہیں اور وہاں دھڑلے سے انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیر رہی ہیں۔ 

گرچہ اسرائیل کی حمایت کرنے والے بھی اس قانون کو مانتے ہیں کہ صحافیوں کا قتل ایک بڑا جنگی جرم ہے، لیکن اس کے باوجود ایک ناجائز ریاست کی پُشت پناہی پرمُصر ہیں، تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انسانی حقوق کا درس دینے والے یہ بڑے بڑے ادارے اور عالمی طاقتوں کی شان و عظمت میں لکھے گئے قصیدے، افسانے کس کام کے۔ کیا ’’خوش حالی کی ضامن‘‘ یہ فلک بوس عمارتیں زمیں بوس نہیں ہوجانی چاہئیں؟

اب تم اونچے مقام سے نیچے اتر آئو اور کسی فیصلہ کُن گھڑی کا انتظار کرو۔ ؎ ہم دیکھیں گے…لازم ہے کہ ہم بھی دیکھیں گے… وہ دن کہ جس کا وعدہ ہے… جو لوحِ ازل میں لکھا ہے… جب ظلم و ستم کے کوہِ گراں… رُوئی کی طرح اُڑجائیں گے… ہم محکوموں کے پاؤں تلے… یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی… اور اہلِ حکم کے سَر اوپر… جب بجلی کڑ کڑ کڑ کے گی۔

سنڈے میگزین سے مزید