• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں مجوزہ ترامیم، جسٹس منصور اور جسٹس منیب کا سپریم جوڈیشل کونسل کے نام خط

فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم جوڈیشل کونسل کی جانب سے ججز ضابطہ اخلاق میں ترمیم کے معاملے پر جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر نے سپریم جوڈیشل کونسل کے نام خط لکھ دیا۔

دونوں ججز کا خط 11 صفحات پر مشتمل ہے جس میں جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس سرفراز ڈوگر پر اعتراض کیا گیا ہے۔ خط 17 اکتوبر کو ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں مجوزہ ترامیم کے تناظر میں لکھا گیا تھا۔

خط میں کہا گیا کہ ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم پر اعتراض ہے، مجوزہ ترمیم عدلیہ کی آزادی کو کمزور، شفافیت کو محدود اور اختیارات کو ایک شخص تک محدود کیا جارہا ہے، مجوزہ ترامیم بین الاقوامی اقدار کے بھی خلاف ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ ترامیم خطرناک اس لیے بھی ہیں کہ ان کا دائرہ اختیار مبہم ہے، ترامیم خطرناک اس لیے بھی ہیں کیونکہ یہ مخصوص ججز کی آواز دبانے کےلیے استعمال ہوسکتی ہیں۔

خط میں کہا گیا کہ ہم نے 17 اکتوبر 2025 کو اپنے خط کے ذریعے اپنے غیر دستخط شدہ تحریری کمنٹس دے دیے تھے، ہم نے اپنے کمنٹس 18 اکتوبر کو سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے آغاز میں بھی پیش کردیے تھے، ویڈیو لنک پر اجلاس میں شریک ہوئے اور خراب انٹرنیٹ کے باوجود اپنا مؤقف دینے کی کوشش کی، ہم نے یقینی بنایا تھا کہ دستخط شدہ کاپی 20 اکتوبر کو اجلاس کے بعد جمع کرا دی جائے گی۔

خط کے متن کے مطابق قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی اجلاس کی غیر آئینی پیشرفت کے بعد اپنا خط لکھ رہے ہیں، ایس جے سی اجلاس سے ایک دن پہلے قومی عدالتی پالیسی ساز کمیٹی میں ججز کوڈ آف کنڈکٹ پر بحث ہوئی، ایس جے سی اجلاس سے پہلے ججز کوڈ آف کنڈکٹ غیر آئینی طور پر زیر بحث لایا گیا، ججز کوڈ آف کنڈکٹ کا معاملہ خالصتاً سپریم جوڈیشل کونسل کے دائرہ اختیار میں آتا ہے، چیف جسٹس ہم سے متفق تھے کہ آرٹیکل 209 کے تحت صرف جوڈیشل کونسل ہی ضابطہ اخلاق بناسکتی ہے۔

خط میں کہا گیا کہ سپریم جوڈیشل کونسل میں شامل تینوں چیف جسٹسز نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی کے رکن بھی ہیں، نیشنل جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی میں منظوری کے بعد وہی رولز جوڈیشل کونسل میں بھی منظور ہوئے، ججز ضابطہ اخلاق کو جوڈیشل پالیسی میٹنگ سے سپریم جوڈیشل کونسل میں لانا آئین کی خلاف ورزی ہے، موجودہ سپریم جوڈیشل کونسل ججز کوڈ آف کنڈکٹ میں ترمیم کرنے کی اہل نہیں، ان ممبران کو ایس جے سی سے نکال کر ترمیم دیکھنا چاہیے تھی جو پہلے ایک فورم پر منظوری دے چکے۔

خط کے مطابق ہمارے اعتراض کے باوجود انہی ممبران نے ترمیم منظور کی جو پہلے ہی مؤقف قائم کرچکے تھے، ہم ایک آزمائشی دور سےگزر رہے ہیں، جمہوریت دباؤ کا شکار ہے، آئینی ادارے آزمائش سے گزر رہے ہیں، ایسے حالات میں ایک مضبوط، بےخوف اور آزاد عدلیہ ہی عوام کی آخری اور واحد پناہ گاہ ہوتی ہے، ججز کی آزادی محدود کرنے، ججز کو قابو کرنے سے متعلق کسی بھی ترمیم کو احتیاط سے دیکھنا ہوتا ہے، ججز کو سزا دینے کے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کے اقدام کی مضبوطی سے مزاحمت ضروری ہے۔

قومی خبریں سے مزید