• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ہمارے ہاں جمہوریت پر ہمیشہ سے ہی سوال اُٹھتے رہے ہیں۔ یہاں کنٹرولڈ ڈیموکریسی اور ہائبرڈ نظام پر بہت باتیں ہوتی رہی ہیں اور آج بھی ہو رہی ہیں۔ لیکن اگر بات نہیں ہوتی تو وہ اس نکتے پر کہ عملی طور پر جو جمہوریت پاکستان میں رائج ہے، وہ نہ صرف آئین کے منافی ہے بلکہ اسلام کی تعلیمات کے بھی خلاف ہے۔ مغربی جمہوریت میں اکثریت کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جس قسم کا قانون چاہے بنا دے، چاہے ہم جنس پرستی کو جائز قرار دے یا شراب نوشی کو قانونی حیثیت دے۔ ایسی جمہوریت اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر نہ صرف ناقابلِ قبول بلکہ صریحاً خلافِ اسلام ہے۔ اسی بنیاد پر جب پاکستان کا آئین مرتب کیا گیا تو مغربی جمہوریت کے اس اصول یعنی جو اکثریت کہے وہی قانون ہو، کو تسلیم نہیں کیا گیا۔ اس کے برعکس، اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو آئینِ پاکستان میں تسلیم کرتے ہوئے جمہوریت، اکثریت اور قانون سازی سب کو اسلام کے تابع کردیا گیا۔ پارلیمنٹ کو مجلسِ شوریٰ کا درجہ دیا گیا اور اراکینِ پارلیمنٹ کیلئے ایسی اہلیت کی شرائط رکھی گئیں کہ کردار و عمل کے لحاظ سے بہترین اور دیانت دار لوگ ہی اسمبلیوں میں پہنچ سکیں۔ مقصد یہ تھا کہ قانون سازی اور پالیسی سازی میں اسلامی اصولوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہو۔ ہم اکثر کنٹرولڈ یا ہائبرڈ جمہوریت پر تو بحث کرتے ہیں لیکن یہ بات کیوں نہیں کرتے کہ اصل خرابی تو یہ ہے کہ ہماری جمہوریت فراڈ ہے۔ وجہ یہ کہ جن اصولوں اور جس منشا کا تعین آئینِ پاکستان جمہوریت کیلئے کرتا ہے، ان پر عمل ہی نہیں ہوتا۔ یہی اصل مسئلہ ہے کہ ہمارا آئین تو اسلامی ہے، لیکن عملاً یہاں ایک ایسا نظام رائج ہے جو اسلام کے اصولوں کے سراسر خلاف ہے۔ جب آئین کے مطابق اسمبلیوں کے اراکین کی اہلیت کا جائزہ ہی نہیں لیا جاتا تو پھر کوئی بھی شخص خواہ اس کا کردار کچھ بھی ہو پارلیمنٹ کا رکن بن جاتا ہے، اور یہی کچھ یہاں ہورہا ہے۔ جب آئین کی اسلامی شقوں پر عمل نہیں ہوتا، سودی کاروبارعام ہو، شراب کھلے عام دستیاب ہو، فحاشی و عریانیت پھیل رہی ہو، غیر اسلامی قوانین نافذ ہوں اور رائج نظام انگریز کی نقالی پر چل رہا ہو تو پھر یہ سب کیا ہے؟ ایسے نظام کو کیا آئینی اور اسلامی مانا جا سکتا ہے؟ یہ ایک دھوکہ ہے۔ ایک ایسا دھوکہ جو آئین کے ساتھ، جمہوریت کے نام پر، اور پاکستان کی نظریاتی اساس یعنی اسلامی نظریے کے ساتھ کیا جا رہا ہے۔ اسلامی تعلیمات اور آئینِ پاکستان کی روح کے خلاف رائج یہ جمہوری ڈھانچہ دراصل اسلامی نظام کے نفاذ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن چکا ہے۔ ہمیں جمہوریت، جمہوریت کی گردان تو پڑھائی جا رہی ہے، مگر جس نظام کے قیام کیلئے پاکستان بنا، اور جس نظام کے نفاذ کا وعدہ آئینِ پاکستان کرتا ہے وہ آج بھی ایک خواب ہے جو معلوم نہیں کب پورا ہو گا۔ میری بات کا مقصد سیاست، حکومت اور ریاستی امور میں اسلامی تعلیمات کا حقیقی نفاذ ہے لیکن افسوس کہ اس کے سب سے بڑے مخالف وہی ہیں جو سب سے زیادہ’’جمہوریت، جمہوریت‘‘ کا نعرہ لگاتے ہیں۔

تازہ ترین