ماحولیاتی سائنس کے ادنیٰ طالب علم کی حیثیت سے ہماری رائےمیں ’’محض مشینی آلات اور ہتھیاروں کے استعمال سے آپ ماحول یا موسموں کیخلاف دیرپا فتح حاصل نہیں کر سکتے‘‘۔ منگول جنگجو قبلائی خان نےبحری جہازوں کے ذریعے جاپان پر چڑھائی کی، لیکن سمندری طوفانوں نے اسکے لشکر کو تتربتر کر دیا۔ روس کے سرد موسم کو نپولین بوناپارٹ شکست نہ دے سکا،ناکام و نامراد واپس پلٹ گیا۔ برطانوی مسافر بردار جہاز ٹائی ٹینک برفانی تودے چیر کر آگے بڑھنے لگا لیکن دو ٹکڑے ہو کر سمندر برد ہو گیا۔ تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے کہ جب انسان نے موسموں سے ٹکرانے کی ٹھانی مگر ہزیمت اٹھائی۔ یہی کیفیت ماحول کے مقابل پیش آتی ہے۔ اپنے ایئرکنڈیشنر کو پل بھر کیلئے بند کر کے دیکھ لیں، بیرونی ماحول کی حدت آپ کی طرف پلٹ آئیگی۔ دریا کے راستوں کو اپنی تعمیرات سے مسدود کر لیں، وہ اپنی طغیانیوں کے بل بوتےپر انہیں بہا لے جائیگا۔ ان سچائیوں کے باوجود آج کل اسموگ کے عفریت کو ہم سطحی طریقوں اور جنگی مشینوں کے مشابہ آلات سے ختم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن ناکام ہو رہے ہیں۔ اسموگ کی شدت میں اسکے باوجود ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ لاہور میں اسموگ کے خاتمے کیلئے کبھی ہوائی جہازوں کے ذریعے مصنوعی بارشوں کا اہتمام کیا گیا اور کبھی ہوا چوس (Air Suckers) کے زور پر اسموگ ختم کرنے کی کوشش ہوئی۔ ان ناکامیوں کے بعد اب ہم اسموگ پر فتح پانے کیلئےموبائل توپیں (Anti Smog Guns) سڑکوں پر لے آئے ہیں۔ جبکہ ماہرین کے نزدیک اس ماحولیاتی توپ کی کارکردگی سوالیہ نشان ہے۔ لاہور کی سڑکوں پر اوسطاً 15کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے متحرک یہ توپ گاڑی محدود بلندی سے اسموگ کے ذرات اپنی آبی پھوار میں جکڑتی، زمین پر پٹختی، 12000لٹر فی گھنٹہ مصفا پانی کا استعمال کرتی، شہر کی سڑکوں، گلیوں سے اسموگ کا خاتمہ کر دے گی۔ تاہم یہ خاتمہ زیادہ سے زیادہ دو گھنٹے کیلئے ہو گا، اسکے بعد سڑک کے دائیں بائیںموجود اسموگ کے ذرات صاف شدہ پٹی پر حملہ آور ہو جائیں گے۔ مشین کے حلقہ اثر سے اُوپر اُفقی بلندیوں پر موجود اسموگ نیچے آ جائیگی۔ اس دو گھنٹے کے عرصہ اثر کے دوران 15عدد توپ گاڑیاں محض 450کلومیٹر لمبائی پر ہی اسموگ سے نبردآزما ہو سکتی ہیں۔ اس دوران شہر لاہور کی باقی ماندہ سڑکوں، گلیوں کہ جنکی کل لمبائی تقریباً 13000کلو میٹر ہے اور 2500مربع کلومیٹر پر محیط رہائشی علاقوں کی باری کب آئیگی۔علاوہ ازیں جو اسموگ نیچے زمین پر آتی ہے اس کا پانی بخارات بن کر دوبارہ آزاد ذرات کی مدد سے اسموگ بناتا ہے اور زمین پر رہ جانیوالے ـPM2.5 وغیرہ دوبارہ گرد آلودگی کا باعث بنتے ہیں۔ دہلی میں بھی یہ گنز استعمال ہوئیں، لیکن شاہرات پرانکااستعمال ناکام ہو گیا۔اسی لئے ’’انڈین ایئرلیبارٹری‘‘ کے سربراہ ڈی پنکارساھا نے بجاطور پر کہا ہے کہ ’’اینٹی اسموگ گنز مستقل حل نہیں۔ یہ وہیں استعمال کر سکتے ہیں جہاں عمارات کی تعمیر و تخریب وغیرہ کی سرگرمیاں ہوں یا آتش زدگی کا واقعہ ہو‘‘۔ گزشتہ سال لاہور میں اسموگ کے خاتمہ کیلئے دیوہیکل ہوا چوس (Air Suckers) مشینیں بھی آزمائیں۔ تب ہم نے نشاندہی کی کہ یہ مشینیں شہر کے بارڈر سے اندرونی اسموگ کو سمیٹ لیں گی لیکن دوسرے شہروں اور ہندوستان کے مقامات سے بھی اسموگ بھاگتی ہوئی لاہور شہر میں داخل ہو جائیگی اور یوں بیرونی اسموگ کی دراندازی کا لامتناہی سلسلہ شروع ہو جائیگا۔ان ہوا چوس مشینوں کا استعمال غالباً ترک کر دیا گیا ہے۔گزشتہ سے پیوستہ سال ہوائی جہاز کے ذریعے مصنوعی بارش کی مدد سے اسموگ سمیٹنے کا مہنگا تجربہ بھی ناکام رہا۔ یہ ایک مختصرالمیعاد اور نہایت محدود (localized) حل تھا جس میں استعمال ہونیوالے مہنگے نمکیات کے مضر اثرات کا پیشگی اندازہ نہ ہو سکا۔ حقیقت یہ ہے کہ بھٹوں میں زگ زیگ اختراع جہازوں کے ذریعے مصنوعی بارش، میکینکل ہوا چوس پنکھوں اور اسموگ گنز وغیرہ کا استعمال کوئی پائیدار حل نہیں، جب تک ہم زہریلی گیسوں کے اخراج اور انکے مآخذ کا خاتمہ نہ کر لیں۔ گاڑیوں کا Emmission test ضرور کیا جائے، لیکن غیر معیاری فیول بیچنے والے پٹرول پمپس کا سراغ لگانے کیلئے۔ یاد رہے کہ گاڑیوں سےبرآمد خطرناک گیسز کامؤجب غیرمعیاری اور غیرمصدقہ فیول ہوتا ہے۔ گاڑی نئی ہو یا پرانی غلیظ فیول کی صفائی کی استعداد نہیں رکھتی۔ ماحولیاتی اداروں کا عملہ پٹرول پمپس کے معیارات کو روزانہ کی بنیادوں پر چیک کیوں نہیں کرتا؟ اپنی منصبی ذمہ داریوں سے غافل کیوں ہے؟ بھٹہ خشت میں زگ زیگ ٹیکنالوجی کا استعمال دُھوئیں کا محض اُفقی فاصلہ (Horizontal distance) بڑھاتا ہے جسکی وجہ سے ٹھوس ذرات ازقسم PM10 بھٹے کے راستوں میں رہ جاتے ہیں، لیکن PM2.5 کی کثیر مقدار اور ایک درجن کے قریب دوسری خطرناک گیسز پر اس ٹیکنالوجی کا خاص اثر نہیں ہوتا اور یوں خطروں سے بھرپور یہ اخراج فضا میں اسموگ کا باعث بنتا ہے۔ بہتر ہے اکتوبر سے دسمبر تک بڑے شہروں کے نواحی بھٹوں کو بند کر دیا جائے۔ باقی ماندہ مہینوں میں پیداوار بڑھانے اور اینٹوں کو اسٹور کرنے کیلئے بھٹہ مالکان کیلئے قرضوں کی limits کا اہتمام کیا جائے، نیز کنکریٹ برکس کو فروغ دیا جائے۔ کارخانوں میں معیاری ایندھن کا استعمال لازم قرار دیا جائے۔ ایسے چھوٹے بڑے صنعتی ادارے جو زرعی، صنعتی ویسٹ اور مضر پلاسٹک کی اشیاء سے فیول کا کام لیتے ہیں۔ ان کی رات کے آخری پہر تک سخت نگرانی کی جائے، شہر کے اندرون ٹریفک کو کم ترین سطح پر لایا جائے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ بڑے شہروںکے اندرون کاروباری مراکزاور کثیرالمنزلہ عمارات کو بقدر حصہ شہر سے باہر منتقل کر دیا جائے تاکہ فضائی کثافتیں ایک ہی جگہ مرتکز ہونے کی بجائے وسیع علاقوں میں پھیل جائیں اور انکے ضرر میں کمی ہو جائے۔ درحقیقت اسموگ کا عفریت کوئی عام اور سطحی مسئلہ نہیں رہا۔ یہ کوئی فرشی نشانات نہیں کہ ڈٹرجنٹ وغیرہ سے صاف کرلیے جائیں۔ اسموگ اب بڑے شہروں بالخصوص لاہور کے سماجی،اقتصادی اور سیاسی ڈھانچے کی بقا کیلئے شدید خطرہ بن چکی ہے۔ ایک ایسا خطرہ جس کا ’’کھُرا‘‘ پاور پلانٹس، فیکٹریوں، بھٹوں اور گاڑیوں میں استعمال ہونیوالے ناقص ایندھن کی طرف جاتا ہے۔ اسموگ کی وجہ سے میعادی بخار میں مبتلا اس شہر کیلئے عارضی طور پر قربانی دینا پڑے تو احتراز نہیں کرنا چاہئے۔ چنانچہ اس آفت سے بچنےکیلئے لاہور کے پڑوس بالخصوص ساہیوال اور شیخوپورہ میں چلنے والے پاور پلانٹس کو چند مہینوںکیلئے بند کرنا پڑے، تو یہ بھی کر گزریں۔