• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا کے ہر دور میں ایک سچائی واضح نظر آتی ہے: طاقت وقتی قابو دے سکتی ہے، مگر عدل ہی قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔ جب انصاف موجود ہو تو معاشرہ ترقی کرتااور عوام کا اعتماد بحال رہتا ہے۔جب انصاف غائب ہو تو خوف، انتقام اور انتشار جنم لیتے ہیں۔ آج ہم ایک ایسے موڑ پر کھڑے ہیں جہاں یہ سوال ہماری ذات سے منسلک ہے کہ کیا ہم ریاست کو اسی طرح برقرار رکھنا چاہیں گے جو تشدد اور نفرت کی بنیاد پر قائم ہو، یا ہم وہ ریاست چاہتے ہیں جو انصاف، قانون اور شفافیت کی بنیاد پر کھڑی ہو؟ پاکستان کے تیز رفتار بدلتے ہوئے منظرنامے میں یہ سوال محض نظریہ نہیں ،یہ ہر اس گھر کی صبح اور رات سے جڑا ہوا ہے جسکے پاس بوڑھی ماں، لاپتہ بیٹا یا جلتی ہوئی امید ہے۔

حقیقت یہ ہےکہ جب کوئی عدالت فیصلہ کرتی ہے تو وہ نہ صرف فرد کے جرم پر رائے دیتی ہے بلکہ معاشرے کو یہ پیغام دیتی ہے کہ سچ اور حق کا احترام لازمی ہے۔ اسی بنیاد پر لوگوں کا قانون پر اعتماد بنا رہتا ہے۔ اگر اس عمل کو تبدیل کرکے طاقت کے ہاتھ میں دے دیا جائے تو ریاستی جواز کمزور پڑ جاتا ہے ۔ پولیس مقابلے، جبری گمشدگیاں، اور تحویل میں ہلاکتیں اس خوف کی علامت ہیں کہ ریاست نے اپنے قوانین اور ضوابط کو خود کمزور کر دیا ہے۔

پنجاب کی مثال دل دہلا دینے والی ہے۔ اطلاعات کے مطابق سی سی ڈی کی تحویل میں تقریباً ایک ہزار کے قریب مشتبہ افراد کی ہلاکتیں رپورٹ ہوئی ہیں۔ ہر انسانی جان ایک اکائی ہے جسکے پیچھے گھر، ماں، بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔ جب یہی اکائیاں پولیس حراست میں مرتی ہیں اور انہیں پولیس مقابلےکا لیبل دے کر دفن کر دیا جاتا ہے تو سوال اٹھتا ہے کہ کیا ہمارے عدالتی میکانزم اتنے بے بس ہو چکے ہیں کہ وہ مجرم اور ملزم میں فرق نہیں کر سکتے؟ کیا اسی بے بسی کی وجہ سے طاقت کو اپنا ہاتھ صاف کرنے کا حق دے دیا جا رہا ہے؟ ۔

یہاں چند بنیادی حقائق یاد رکھنا ضروری ہے: کسی بھی قابل اعتماد انصاف کے نظام میں شرائط و ضوابط ہوتے ہیں ملزم کی گرفتاری، جرم کے شواہد، از سرِ نو جائزہ، دفاع کا حق، ملزم کو مقدمے کا سامنا کرنے کے تمام مواقع ،یہی عمل اس بات کی ضمانت بنتا ہے کہ غلطی کے امکانات کم سے کم رہیں۔ جب یہ مرحلے ختم ہو کر Extra judicial killings کی طرف چلے جاتے ہیں تو بے گناہوں کے مرنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب ریاستیں قانون کے بجائے قوت کے ذریعے فیصلے کرنے لگیں، تو سیاسی انتقام، فسادات اور امپیوٹی کا دور شروع ہو جاتا ہے۔

آج پاکستان میں جب ہم پابندیوں، گرفتاریوں، اور جبر کے طریقوں پر غور کرتے ہیں تو ہمارے سامنے متعدد عملی و آئینی مسائل نمایاں ہوتے ہیں۔ 2022 میں منظور ہونیوالا Torture and Custodial Death Act ایک مثبت قانونی قدم تھا، مگر قانون کا ہونا اور اس کا مؤثر نفاذ دو مختلف خطوط ہیں۔ قانون کو جب تک عملی طور پر نافذ نہ کیا جائےآزاد تحقیقات، شفاف نیب اورفارنزک لیبز کی اپ گریڈیشن تب تک کاغذی قانون کی تحریر ہی رہ جاتی ہے۔ رپورٹس، حقوقِ انسانی تنظیموں کے اعداد و شمار اور میڈیا کے کیس اسٹڈیز بتاتے ہیں کہ جبری گمشدگیاںاور غیر شفاف پولیس کارروائیاں مستقل طور پر عوامی دل میں خوف بھرتی ہیں اور عدالتی نظام کی ناکامی کا ثبوت بنتی ہیں۔

ایک اور حقیقت یہ ہے کہ پولیس اسٹیٹ کی علامت صرف تشدد کے واقعات نہیں، بلکہ وہ نظامی ڈھانچہ بھی ہے جو طاقت کے استعمال کو بالاتر سمجھتا ہے۔ جب ادارے جواب دہی کے بجائے خود کو استثنا سمجھنے لگیں، تب ہی وحشت و عدم اعتماد بڑھتا ہے۔ ترقی یافتہ جمہوری معاشروں میں پولیس اصلاحات باڈی کیمرے، تربیت، قانونی نگرانی، سول نگران کمیٹیاںاس لیے متعارف کرائی گئیں کہ فقدانِ شفافیت کو کم کیا جا سکے۔ مگر یہ اصلاحات جادو کی چھڑی نہیں انہیں قانونی عمل، عوامی دباؤ، اور سیاسی عزم کے ساتھ نافذ کرنا پڑتا ہے۔

اب سوال یہ بنتا ہے کہ کیا کوئی متبادل ہے؟ کیا عدالتیں واقعی اس قدر کمزور ہیں کہ انہیں بند کر دینا بہتر ہے اور طاقت ہی درست راستہ ہے؟ اس کا جواب سخت مگر واضح ہے: نہیں۔ عدالتوں کو بند کرنا ریاست کو قانون سے نکال کر جنگل کے قانون میں ڈال دینے کے مترادف ہوگا۔ عدالتیں اگر کمزور ہیں تو انہیں مضبوط کرنا چاہیے، نہ کہ ختم۔ عدالتی اصلاحات، تیز رفتار ٹرائل کورٹس، خود مختار فارنزک ادارے، اور پبلک انٹرسٹ لِٹگیشن کے راستے اسی غرض کے لیے کھولے گئے ہیں ۔عملی سطح پر جو اقدامات فوری طور پر ممکن ہیں وہ درج ذیل ہیں: ہر Custodial death کی فوری، آزاد اور شفاف تحقیق ، تیز رفتار ٹرائل کورٹس کی تشکیل تاکہ کیس برسوں تک التوا کا شکار نہ ہوں ، آٹوپسی کی مکمل شفافیت اور فورنزک شواہد کی حفاظت ، سول نگران باڈیز کی تشکیل جو پولیس کی کارروائیوں کی جانچ پڑتال کرے، باڈی کیمروں کا عمومی نفاذ ، پولیس اہلکاروں کی اچھی تربیت اور Less-lethal equipment کا استعمال ، متاثرہ خاندانوں کو پرو بونو قانونی مدد فراہم کرنا اور پارلیمانی سطح پر اوپن سماعتیں جن میں پولیس اور انٹیلی جنس کے سربراہ عوامی طور پر جواب دیں۔ اس کے علاوہ دستاویزی مہم، تحقیقی صحافت اور بین الاقوامی انسانی حقوق کے اداروں کے ساتھ شراکتِ کار بھی فوری دباؤ پیدا کرنے میں معاون ثابت ہوتے ہیں۔

یہ اقدامات شاید طویل المدت میں نتیجہ دیں، مگر فوری دباؤ اور عوامی شعور بھی اسی تبدیلی کی شروعات ہے۔ جب عوام اپنی آواز بلند کریں عدالتوں میں PIL دائر کریں، وکلاء اور انسانی حقوق کی تنظیموں کے ساتھ مل کر کیسز لے کر آئیں، میڈیا میں حقائق کی بنیاد پر روشنی ڈالیں تو وہی آواز ریاستی اداروں کو ضرور مائل کرتی ہے کہ وہ شفافیت اختیار کریں۔ نسخہ یہی ہے کہ عدالتی اصلاحات اور عوامی دباؤ ایک ساتھ ہوں تو ہی نظام بدلتا ہے۔

تازہ ترین