ایک ماں کا انتظار اُس وقت سے شروع ہوتا ہے، جب وہ اُمید سے ہوتی ہے۔ اُسے انتظار ہوتا ہے، ایک جیتے جاگتے، صحت مند وجود کو جنم دینےکا۔ اُس کے بعد، اُسے انتظار ہوتا ہے، اپنے بچّے کے بولنے کا، اُس کے چلنے پِھرنے کا۔ جب یہ مرحلہ گزرجائے، تو وہ انتظار کرتی ہے، بچّے کے اسکول جانے کا۔ وہ وقت آجائے، تواس کو بچّے کے اسکول سےگھر آنے کا انتظار رہتا ہے۔
تعلیم مکمل ہوجائے تو بچّے کی اچھی ملازمت کا انتظار اور جب وہ وقت بھی آجاتا ہے، تو وہ انتظار کرتی ہے، بچّے کی شادی کے دن کا، شادی کی منزل بھی آجاتی ہے، تو بچّے کے بچّوں کا انتظار شروع ہوجاتا ہے۔ قسمت سے وہ بھی مل جائیں، تو پھر وہ زیادہ سے زیادہ وقت فیملی کے ساتھ گزارنے کی منتظر رہتی ہے۔
اب عُمر ڈھلنی شروع ہوگئی ہے، برداشت ختم ہونے لگی ہے۔ وہ بلاوجہ بھی بچّوں سے ناراض رہنے لگتی ہے۔ اب اُسے انتظار ہوتا ہے کہ اُس کے بچّےاُسے آکے منائیں، جیسے وہ بچپن میں بارہا اُنہیں منایا کرتی تھی۔ اور… جس کی زندگی مجسّم انتظار رہی ہو، اتنا تو اُس کا حق بنتا ہے کہ اب اُس کے انتظارکی لاج رکھی جائے۔ اُسے محض اپنی موت کا انتظار کرنے کے لیے بالکل تنہا نہ چھوڑ دیا جائے۔ (بلقیس متین، کراچی)