• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حال ہی میں IMF نے اپنے EFF پروگرام کے تحت پاکستان کے مجموعی 7ارب ڈالر قرضے سے ایک ارب ڈالر کی تیسری قسط اور 200ملین ڈالر کلائمیٹ فنانسنگ (RSF) کی اسٹاف لیول معاہدے میں منظوری دی۔ EFF پروگرام کے تحت پاکستان کو پہلے ہی ایک ارب ڈالر کی پہلی اور 760ملین ڈالر کی دوسری قسط یعنی مجموعی 1.76ارب ڈالر موصول ہوچکے ہیں جبکہ کلائمیٹ فنانسنگ (RSF) کی مد میں 1.4 ارب ڈالر قرضے سے 200ملین ڈالر کی پہلی قسط کی منظوری بھی دی گئی جن کی IMF بورڈ سے توثیق ہونا باقی ہے۔ اس موقع پر پاکستان کی معیشت پر IMF نے اپنی ورلڈ اکنامک آؤٹ لک رپورٹ میں رواں مالی سال پاکستان کی GDP اور افراط زر یعنی مہنگائی کے حکومتی اہداف حاصل نہ ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے اس سال 3.6 فیصد GDP گروتھ کا تخمینہ لگایا ہے جبکہ وفاقی حکومت نے GDP گروتھ کا ہدف 4.2 فیصد مقرر کیا تھا۔ رپورٹ میں 2030ء تک پاکستان کی معاشی شرح نمو 4.5 فیصد کی پیش گوئی اور اوسط افراط زر یعنی مہنگائی کا ہدف 7.5 فیصد مقرر کیا گیا ہے جبکہ حکومت نے اوسط مہنگائی کا ہدف 5.1فیصد رکھا تھا۔ IMF نے 2026ء تک اوسط مہنگائی 8 فیصد اور 2030 ء تک کم ہوکر 6.5فیصد تک رہنے کا تخمینہ لگایا ہے اور اس سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ GDP کا 0.4فیصد رہنے کی توقع ظاہر کی ہے جبکہ گزشتہ سال کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ GDP کا 0.1فیصد تھا۔ رپورٹ میں 2030ء تک پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ 1.1 فیصد رہنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے اور بیروزگاری کی شرح 7.5فیصد متوقع ہے۔ IMF رپورٹ میں سیلاب سے معاشی نقصانات کو شامل نہیں کیا گیا، حالیہ سیلابوں سے لاکھوں ایکڑ پر کھڑی فصلیں تباہ ہوئی ہیں، لاکھوں افراد بے گھر ہوئے ہیں اور انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ RNA کے مطابق حالیہ سیلابوں نے مجموعی 744 ارب روپے کے نقصانات پہنچائے ہیں۔ امریکہ کی جانب سے ٹیرف میں اضافے اور تجارتی پارٹنرز کے جوابی اقدامات سے عالمی طلب اور سپلائی چین میں تبدیلیاں آئی ہیں لیکن اسکے باوجود ابھرتی ہوئی معیشتوں کی کارکردگی توقعات سے بہتر رہی ہے۔ IMF رپورٹ میں ٹیکس وصولی کے ہدف حاصل نہ کرنے، حکومتی ملازمین کے پنشن فنڈز میں مسلسل اضافے پر شدید تشویش کا اظہار اور حکومتی سبسڈیزجلد ختم کرنیکا مطالبہ کیا گیا ہے جبکہ سولر پینل اور انٹرنیٹ پر ٹیکس کی شرح 10 فیصد سے بڑھاکر 18 فیصد کرنے کے علاوہ امپورٹڈ لگژری گاڑیوں پر ٹیکس کی شرح بڑھانے کی بھی تجویز دی گئی ہے۔ بجلی کے نرخوں میں اضافے کے باعث پاکستان میں لوگ شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرنے کی جانب تیزی سے راغب ہو رہے ہیں اور اس وقت چھتوں پر سولر پینل سے 6000 میگاواٹ بجلی پیدا کی جارہی ہے جبکہ 4000 میگاواٹ سولر پینل مزید امپورٹ کئے جاچکے ہیں جنہیں لگاکر سولر انرجی کی مجموعی پیداوار 10000 میگاواٹ ہو جائیگی جبکہ حکومت سولر کے پھیلاؤ کو محدود کرنے کی کوشش کررہی ہے کیونکہ حکومت کے پاس 8000میگاواٹ کی اضافی بجلی موجود ہے جس پر حکومت کیپسٹی چارجز ادا کررہی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں GDP میں قرضوں کی شرح میں 1.2فیصد اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر 71.6فیصد ہوگئے ہیں۔ IMF نے اپنی جائزہ رپورٹ میں پاکستان کیلئے اہم خطرات اور چیلنجز میں بتایا کہ پاکستان کی معیشت بتدریج سنبھل رہی ہے مگر بحالی کا عمل نہایت نازک ہے۔ ماحولیاتی آفات، سیلاب اور بارشیں ملکی معیشت اور زراعت پر دباؤ ڈال سکتی ہیں۔ رپورٹ میں حکومتی گورننس میں بہتری، پالیسیوں کے تسلسل ،سیاسی استحکام اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی بڑے چیلنجز ہیں۔ سرکولر ڈیٹ اور خسارے میں چلنے والے حکومتی ادارے قومی خزانے پر ناقابل برداشت بوجھ اور ان کی جلد از جلد نجکاری سے حکومتی مالی بوجھ میں کمی لائی جاسکتی ہے۔ توانائی اور ٹیکس اصلاحات ناگزیر ہوگئی ہیں حالانکہ اس سال GDP میں ٹیکس کی شرح معمولی اضافے سے 10.8فیصد تک پہنچ گئی ہے لیکن پاکستان کو خطے کے دیگر ممالک کی طرح اسے کم از کم 15 فیصد تک لانا ہوگا۔ زرمبادلہ ذخائر کو مستحکم کرنے کیلئے ایکسپورٹ پر مبنی گروتھ ماڈل اپنانا ہوگا جس کیلئے ہمیں بجلی اور گیس کے نرخوں کو کم کرکے 8 یا 9 سینٹ فی کلو واٹ اور بینکوں کی شرح سود کو سنگل ڈیجیٹ پر لانا ہوگا تاکہ پیداواری لاگت میں کمی کی جاسکے اور ہم عالمی مارکیٹ میں اپنے مقابلاتی حریفوں کا مقابلہ کرسکیں۔ کپاس ،جومسلسل تنزلی کا شکار ہے، کی پیداوار جدید بیجوں اور ٹیکنالوجی سے بڑھانی ہوگی تاکہ ٹیکسٹائل صنعت کو مقامی سطح پر خام مال دستیاب ہوسکے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے بھیجی گئی ریکارڈ 38 ارب ڈالر کی ترسیلات زر اور پاکستان اسٹاک ایکسچینج انڈیکس میں ریکارڈ اضافہ ملکی معیشت پر سرمایہ کاروں کے اعتماد کا مظہر ہے۔ حالیہ سروے نے یہ بات ثابت کی ہے کہ پاکستان قدرتی معدنیات سے مالا مال ہے جس میں بلوچستان میں چاغی اور گلگت بلتستان کے مقام پر تانبے، سونے، لیتھیم، کوئلے اور نادر معدنیات (REEs) کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ ہمیں SIFC کے تعاون سے سینڈک اور ریکوڈک کے منصوبوں کو جلد از جلد کمرشل بنیادوں پر شروع کرنا ہوگا جس میں امریکہ، چین، سعودی عرب اور یو اے ای دلچسپی ظاہر کرچکے ہیں۔ اسی طرح ہم آئی ٹی اور مصنوعی ذہانت (AI) کو فروغ دے کر اپنی آئی ٹی ایکسپورٹ موجودہ 3.5 ارب ڈالر سے بڑھاسکتے ہیں۔ پاکستان کی معیشت پر حالیہ IMF جائزہ رپورٹ اس بات کا اعتراف ہے کہ ملکی معاشی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے لیکن ابھی ایک طویل سفر باقی ہے!

تازہ ترین