• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ابّاجی نے سرسہ واپس پہنچ کر کچھ عرصہ ہمارے ساتھ گزارا۔ پٹوار کا حلقہ سرسہ سے تقریباً سات آٹھ میل دور تھا۔ آپ شروع میں روزانہ پیدل یا گھوڑی پر سفر کر کے حلقے میں جاتے۔ ابّاجی کا کام فصل کا آبیانہ طے کرنا تھا جس کیلئے زرعی رقبے کی پیمائش کرنا ہوتی۔ اُن کے پاس لوہے کی ایک جریب ہوتی تھی جس سے وہ کھیتوں کا رقبہ ناپتے اور فصل کی نوعیت کا اندراج کرتے۔ مدد کے لیے گاؤں کا چوکیدار ساتھ ہوتا۔ کچھ عرصے بعد اُن کا تبادلہ ہندوؤں کے ہانسی نامی گاؤں میں ہو گیا جہاں مسلمانوں کے صرف تین گھر تھے۔ یہ گاؤں ’بھٹو ریلوے اسٹیشن‘ سے پانچ میل دور تھا۔ بھٹو اسٹیشن سرسہ اور حصار کے درمیان واقع تھا۔

ابّاجی کے بقول نوکری اُن کیلئے ایک عبادت تھی۔ وہ ہر کھیت پر جا کر زیرِکاشت رقبہ ماپتے اور جس دن کاشت کی جاتی، اُس تاریخ کا اندراج کرتے، کیونکہ ہر جنس کی شرح آبیانہ مختلف تھی۔ چونکہ اُس زمانے میں نہری نظام وسعت پذیر تھا، لہٰذا جو سرکاری اہل کار آبیانہ کی شرح متعین کرنے پر مقرر تھے، اُنہیں تنخواہ کے علاوہ سال میں دو مرتبہ حلقے کی کُل وصول کردہ آبیانے کی رقم کا کچھ حصّہ بطور بونس ملتا تھا۔ والدصاحب چونکہ ملازمت کو عبادت سمجھ کر بڑی دلجمعی سے اپنے فرائض ادا کرتے اور اِس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتتے، اِس وجہ سے اُن کا وصول کردہ آبیانہ حلقے میں سب سے زیادہ ہوتا، لہٰذا اُنہیں بونس بھی سب سے زیادہ ملتا تھا۔

ابّاجی مضبوط اعصاب کے مالک تھے۔ وہ عمر بھر ہمیں عمدہ تعلیم و تربیت بہم پہنچانے کے لیے سخت محنت کرتے رہے۔ ہمیں اعلیٰ تعلیم دلوانے کے لیے ہمیشہ گھر سے باہر اور خاندان سے دور تنہا رہے۔ اپنی ذات کے لیے کبھی کوئی چیز نہیں خریدی۔ ہمیشہ بچوں کی ضروریات کا خیال رکھا۔ اپنے لیے درویشانہ زندگی کا انتخاب کیا۔ وہ اَپنے فرائض کی ادائیگی میں بہت مخلص تھے۔ اُنھوں نے ہمیں نہ صرف تعلیم دلوائی، بلکہ زندگی میں پیش آنے والے ہر قسم کے کٹھن حالات کیلئے بچپن سے ہی تیار کیا اور بڑے سے بڑا اَور چھوٹے سے چھوٹا کام ہمیں خود کرنے کی عادت ڈالی۔ہم بھائی جنگل میں جا کر خاردار جھاڑیاں کاٹ کر لاتے۔ بچپن میں ہی اُنھوں نے ہمیں کلہاڑا اَور پھانہ استعمال کرنا سکھا دیا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ جس طرح اُنھوں نے رزقِ حلال پر ہمیشہ قناعت کی، اُن کی اولاد میں بھی یہی اوصاف پیدا ہو جائیں۔ اُن کی آمدنی انتہائی کم تھی لیکن والدصاحب اُس میں بھی خوش رہے۔ قناعت اُن کی گھٹی میں رچی بسی تھی۔والدہ کے ساتھ ساتھ والد بھی نماز روزے کی سختی سے پابندی کرتے اور چاہتے تھے کہ اُن کی اولاد بھی دینی اقدار کی پاسداری کرے۔ تہجد میں طویل سورتوں کی تلاوت کرتے، بچوں کو بھی نمازِ فجر کے وقت جگا لیتے اور قرآن کی سورتیں حفظ کراتے۔ اُنھیں شیخ سعدی کی گلستان بوستان، مولانا رومی کی مثنوی اور مولانا ظفر علی خان کے ہزاروں اشعار یاد تھے اور وُہ چاہتے تھے کہ اولاد میں سے بھی کوئی اُن کی طرح نام پیدا کرے۔ شیخ سعدی کے ہزاروں اشعار اُنہیں زبانی یاد تھے جو وہ اکثر ہمیں بھی نہ صرف سناتے بلکہ یاد کروانے کی کوشش بھی کرتے۔ اُن کے سنائے گئے اشعار آج بھی میری سماعت میں محفوظ ہیں۔وہ ہمیں علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خان کے اشعار بھی سناتے اور کہتے ’’دیکھو، مولانا ظفر علی خان کے والد پٹواری تھے اور تم بھی پٹواری کے بیٹے ہو۔ بڑے ہو کر مولانا کی طرح نام پیدا کرنا۔‘‘

اُنہیں مولانا ظفر علی خان بہت پسند تھے۔ اُن کی شاعری اور صحافت نے مسلمانوں میں انگریزوں اور ہندوؤں کی ہیبت کم کرنے میں اہم کردار اَدا کیا۔ مولانا نے مسلمانوں میں قومی جذبات ابھارنے کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کی قیادت کا منافقانہ چہرہ بھی بےنقاب کیا۔ والدصاحب دینی تعلیم کے ساتھ ساتھ انگریزی تعلیم بھی لازمی سمجھتے تھے۔

ابّاجی اپنے پیر و مرشد کی ایک دعا اکثر پڑھتے جس کے اشعار کچھ یوں تھے

’’الٰہی! ہوں تیرا بندہ گنہگار ؍ بلائے دامِ شیطاں میں گرفتار ؍ بجز عصیاں نہ بن آیا کوئی کام ؍ لیا دل سے نہیں تیرا کبھی نام ؍ مجھے دریائے وحدت میں ڈبو دے ؍ جو کچھ سامانِ کثرت ہے سو کھو دے ؍ الٰہی! خاتمہ بالخیر کیجیو ؍ حقیقت کی عنایت سَیر کیجیو۔‘‘

دورانِ ملازمت محکمۂ انہار اَور محکمۂ مال کے پٹواری کی اسامی ایک کر دی گئی تھی۔ بعد میں یہ تجربہ ناکام ہونے سے اُنھیں علیحدہ کر دیا گیا، لیکن والدصاحب پٹواری مال کے فرائض سے بھی کماحقہ آگاہ ہو چکے تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد نوزائیدہ وَطن میں تجربےکار پٹواریوں کی شدید کمی پیدا ہو گئی تھی، چنانچہ لاہور آ کر اُنھیں بطور پٹواری کام کرنے کا موقع مل گیا۔ بطور پٹواری محکمۂ بحالیات میں وہ تقریباً دو سال کام کرتے رہے، مگر اُنہوں نے اِس عہدے سے کوئی ذاتی فائدہ حاصل نہ کیا۔ مہاجرین کے زمینی تبادلوں سے اپنے اور بچوں کے لیے زمین کا ایک ٹکڑا تک نہ لیا، البتہ حکومت کی منظورکردہ اسکیم کے تحت ہندوستان میں چھوڑی ہوئی جائیداد کا دعویٰ دائر کیا جو مبلغ دس ہزار رُوپے کے مساوی تھا۔ وہ پورے کا پورا منظور کر لیا گیا۔

والدِمحترم پاکستان آ کر وطن کے لیے کام کرنا چاہتے تھے لیکن دو سال بعد ہی ہمت جواب دے گئی اور ضعیف العمری کی وجہ سے بستر سے لگ گئے۔ اُن کی دونوں آنکھوں کی بینائی جاتی رہی اور چلنے پھرنے سے معذور ہو گئے۔ دونوں آنکھوں کا آپریشن کرانے کی کوشش کی گئی، لیکن ڈاکٹروں نے بتایا کہ آنکھوں کی روشنی پیچھے سے کمزور ہو گئی ہے۔ گو بینائی جاتی رہی تھی، لیکن پوتے پوتیوں کو آواز سے پہچان لیا کرتے۔ بچوں سے اُن کے تعلیمی کوائف پوچھا کرتے۔ آہستہ آہستہ والدصاحب چلنے پھرنے سے بھی معذور ہو گئے۔ اُن کا آخری وقت برادر گُل حسن کی رفاقت میں بسر ہوا۔

گُل حسن صاحب اور اُن کی اہلیہ نے والدصاحب کی ہر طرح سے خدمت کی۔ دمِ آخریں مَیں قاہرہ میں تھا۔ بےچینی سے میرا اِنتظار کرتے رہے۔ جب اُنھیں پتہ چلا کہ مَیں کراچی پہنچ چکا ہوں، تو اِطمینان ہو گیا اور جان، جان آفریں کے سپرد کر دی۔ والد صاحب نے والدہ کی وفات کے پانچ برس بعد ستمبر 1977ء میں انتقال فرمایا۔ اُنہیں والدہ کے قریب ہی میانی صاحب قبرستان میں دفن کیا گیا۔ اللّٰہ تعالیٰ اُنہیں غریقِ رحمت کرے آمین!

تازہ ترین