 
                
                 
ممباسا کے علاقے نیالی میں ہوائیں خوبصورت ساحلوں کا پیغام دیتی ہیں، ممباسا بڑی پرانی بندر گاہ ہے، اسی بندر گاہ کے راستے صدیوں سے عرب اور ایشیائی تاجر افریقہ کا رخ کرتے رہے، یہاں برسوں عمانیوں کی حکومت رہی، یہ تاریخی شہر ثقافتی شہر کے طور پر بھی جانا جاتا ہے، یہاں کے کھانے اور گانے مشہور ہیں، اس شہر کی ابتدا ایک قصبے کے طور پر ہوئی تھی، اس قصبے پر مشرق وسطیٰ کی ثقافت کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے، تنگ گلیاں، کھدی ہوئی سجاوٹی بالکونیاں اور بہت سی مساجد...عرب تاجروں نے ممباسا کو اس طرح متاثر کیا کہ آج بھی شہر میں 80 فیصد مسلمان ہیں۔ اب ممباسا کافی پھیل چکا ہے، اس میں جدید آبادیاں شامل ہو چکی ہیں، یہ ایک تجارتی شہر ہے، اب اس کی آبادی لاکھوں میں ہے، قدیم عرب اسے منبسہ کہتے تھے۔
ممباسا، نیروبی کے بعد کینیا کا دوسرا بڑا شہر ہے، ممباسا میں عربی، ہندوستانی اور یورپی ثقافت کا بھرپور ورثہ ملتا ہے، ممباسا میں نیالی کے بیچز دنیا بھر میں مشہور ہیں، ایک زمانے میں یہاں پرتگالیوں کی بھی حکومت تھی، یہاں قریب ہی مامبا گاؤں بھی ہے، مامبا ویلیج سینٹر میں آپ طاقتور رینگنے والے جانوروں کا مشاہدہ کر سکتے ہیں، اس میں خطرناک مگر مچھ بھی شامل ہیں۔ بام بوری بیچ بھی خاص اہمیت کے حامل ہیں، شہر کے بہترین نظاروں کیلئے بام بوری بیچ کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ بام بوری میں ایک ہالر پارک ہے، جس میں زرافے، مگر مچھ، کولہے، امپالاس اور کچھوے ہیں۔ ممباسا کے اولڈ ٹاؤن کے قریب مشہور فورٹ جیسس ہے، ممباسا میرین نیشنل پارک میں افریقہ کے مشہور جانوروں کے علاوہ سمندری زندگی کو بھی دیکھا جا سکتا ہے، اس قومی پارک کو دیکھنے کے لئے سیاحوں کو اکثر شیشے کی کشتیوں میں سوار ہونا پڑتا ہے، جس کے ذریعے وہ سمندری زندگی کو با آسانی دیکھ سکتے ہیں، جس میں ڈولفن، کچھوے، مرجان اور مچھلی کی کئی قسمیں شامل ہیں۔
ممباسا میں بسنے والے پاکستانیوں کی اکثریت گاڑیوں کے کاروبار سے وابستہ ہے، یہ جاپان سے استعمال شدہ گاڑیاں منگواتے ہیں اور افریقیوں کو بیچتے ہیں، ممباسا میں پاکستانیوں کے قریباً ساڑھے چار سو شورومز ہیں، جہاں بڑی اور مہنگی گاڑیوں کی فروخت ہوتی ہے۔ ہمیں تین چار شورومز پر جانے کا اتفاق ہوا، کراچی کے ایک میمن سرفراز مجید کا ایک بڑا شوروم ہے، ہمیں فیصل سعید خان کے شوروم پر جانے کا اتفاق ہوا، انہوں نے چائے کے ساتھ خلیفہ کی خطائی پیش کی۔ فیصل سعید خان، عمران خان کا دیوانہ ہے، اس شوروم میں ہر طرف عمران خان کی تصاویر آویزاں ہیں، یہیں پر اپنے راوین تنویر گابا سے بھی ملاقات ہوئی، یہیں ہمدمِ دیرینہ ساجد گورائیہ کا تذکرہ ہوا، اسکے بعد واجد بٹ کے شوروم پر جانے کا اتفاق ہوا، واجد بٹ صحافیوں کے قائد افضل بٹ کے رشتہ دار ہیں، گکھڑ منڈی گوجرانوالہ کے رہنے والے واجد بٹ اپنے حافظ اصغر چیمہ کے بھی گہرے دوست ہیں، واجد بٹ نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا مگر وہاں انہوں نے حیران کن بات کی، کہنے لگے’’ میرے پاس سوئٹزرلینڈ کی نیشنلٹی ہے مگر میں ممباسا رہنا پسند کرتا ہوں کیونکہ یہاں کاروبار ہے اور کاروبار ہی زندگی ہے‘‘۔
یہی بات اگلے روز ڈاکٹر ہارون نے کی۔ نیالی گالف کلب میں کیپٹن ظفیر کی طرف سے دیئے گئے عشائیے میں ڈاکٹر ہارون بتانے لگے کہ’’میری آسٹریلیا میں دس ہزار ڈالر ماہانہ پہ نوکری ہوئی تھی مگر مجھے بھی قسمت ممباسا ہی کھینچ لائی‘‘۔ ڈاکٹر ہارون کے گاڑیوں کے دو شوروم ہیں، وہ ایک خیراتی ہسپتال بھی چلاتے ہیں، جہاں شیخ ناظم کرتا دھرتا ہیں۔ نیالی میں شہزادوں جیسی زندگی گزارنے والے کیپٹن ظفیر، عمران خان کے اتنے بڑے عاشق ہیں کہ عمران خان کا ذکر آتے ہی ان کی آنکھوں میں آنسو آ جاتے ہیں، کیپٹن ظفیر کا خاندان قریباً ڈیڑھ سو سال قبل کینیا شفٹ ہو گیا تھا، کیپٹن ظفیر نیالی گالف کلب کے صدر ہیں۔ ممباسا میں تیسرے روز پاکستانیوں کے سچے خدمت کار عثمان خان سے ملاقات ہوئی، عثمان خان کا ممباسا میں کسٹم کلیئرنگ کا وسیع بزنس ہے، عثمان خان میرے چھوٹے بھائی عمار برلاس کے کلاس فیلو ہیں، پاکستان سے بے پناہ محبت رکھنے والے عثمان خان نے کمیونٹی کی خدمت کیلئے پاکستان ہاؤس قائم کر رکھا ہے، جہاں پاکستانیوں کی خدمت کی جاتی ہے۔ ممباسا میں پاکستانی کمیونٹی کا اصل خدمت کار عثمان خان ہی ہے، دعوے دار تو بہت ہیں مگر کام عثمان خان ہی کرتا ہے۔ عثمان خان پاکستان سے محبت کے جذبے کو اس شعر کے ذریعے بیان کرتا ہے کہ
چاند روشن چمکتا ستارہ رہے
سب سے اونچا یہ جھنڈا ہمارا رہے