• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ اور ریونیو جس کا میں ممبر ہوں، کی اسلام آباد میں حکومتی قرضوں پر ایک اہم میٹنگ ہوئی جس کے بعد جرمنی کے تھنک ٹینک Friedrich Ebert Stiftung (FES) اور پاکستان کے SDPI نے بھوربن مری میں پبلک ڈیبٹ پر تین روزہ ورکشاپ کا اہتمام کیا جس میں میرے علاوہ قومی اسمبلی کے دیگر اراکین نوید قمر، نفیسہ شاہ، جاوید حنیف، مخدوم سمیع الحسن گیلانی، وفاقی حکومت کے ڈیبٹ مینجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل محسن مشتاق چاندنہ، وزارت خزانہ کے مشیر ڈاکٹر وسیم شاہد ملک، وقاص پراچہ، وزارت خزانہ کے سابق پرنسپل اکنامک مشیر ثاقب شیرانی، ماہر معیشت ڈاکٹر ساجد امین جاوید، ڈاکٹر عابد قیوم سلہری اور عبداللہ دایو نے پاکستان کے پبلک ڈیبٹ مینجمنٹ پر پریزنٹیشن دیں جو نہایت ہی معلوماتی اور آنکھیں کھول دینے کیلئے کافی تھیں۔ ورکشاپ کا پہلا سیشن 23 اکتوبر کو میری سربراہی میں ہوا جبکہ باقی سیشنز قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین نوید قمر کی سربراہی میں ہوئے۔ سیشن میں بتایا گیا کہ پاکستان کے مجموعی 80518 ارب روپے کے قرضوں میں 68 فیصد ڈومیسٹک قرضے ہیں جن میں 64 فیصد PIBs، 12 فیصد سکوک، 16 فیصد TIBs، 6 فیصد نیشنل سیونگز اور پرائز بانڈز شامل ہیں جبکہ 32 فیصد بیرونی قرضے ہیں جن میں ملٹی لیٹرل، بائی لیٹرل، یورو سکوک بانڈز، کمرشل لون اور IMF کے قرضے شامل ہیں۔

وزارت خزانہ کی مالی سال 2025 کی رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال حکومتی قرضے 3.6 فیصد بڑھ کر GDP کا 74.5 فیصد یعنی ریکارڈ 9.3 کھرب روپے تک پہنچ گئے ہیں جنہیں رواں مالی سال کے آخر تک GDP کا 70 فیصد تک لایا جائے گا۔ قرضوں کی زیادہ سے زیادہ حد کے قانون (FRDLA) کے مطابق پاکستان اپنی GDP کا 60 فیصد قرضے لے سکتا ہے جبکہ ہمارے قرضے اس حد سے بڑھ کر 70 فیصد سے تجاوز کرگئے ہیں اور حکومت کو انہیں 2035 تک کم کرکے 50 فیصد کی حد تک لانا ہے۔ پاکستان کے قرضوں پر سود کا بوجھ اتنا زیادہ بڑھ گیا ہے کہ سود کی ادائیگی کیلئے بھی قرضے لینے پڑرہے ہیں اور ہم دانستہ طور پر ڈیبٹ ٹریپ میں پھنستے جارہے ہیں جس کی وجہ حکومت کی کم آمدنی اور اضافی اخراجات ہیں جو لمحہ فکریہ ہے۔ حکومتی قرضوں کا مینجمنٹ ایک نہایت مشکل کام ہے کیونکہ ان قرضوں پر ناقابل برداشت سود، پاکستانی روپے کی قدر میں کمی اور GDP گروتھ سکڑنے سے GDP میں قرضوں کی شرح ناقابل برداشت حد تک بڑھتی جارہی ہے اور پاکستان خطے میں سب سے زیادہ قرض لینے والا ملک بن چکا ہے جبکہ پاکستان کے گردشی قرضے ان پبلک ڈیبٹ میں شامل نہیں۔ ان واجب الادا قرضوں کی ادائیگی کیلئے حکومت نے 18 بینکوں سے 1200 ارب روپے کے قرضے حاصل کئے ہیں جنہیں بجلی کے بلوں میں 3.23 روپے فی یونٹ سرچارج لگاکر 6سال تک صارفین سے وصول کیا جائے گا۔ ورکشاپ میں اس بات پر بھی بحث کی گئی کہ حکومت کو ریونیو بڑھانے اور اخراجات میں کمی کیلئے دیگر آپشن بھی استعمال کرنے چاہئیں جن میں ڈسکائونٹ ریٹ میں کمی کرکے حکومتی قرضوں پر سود کا بوجھ کم کرنا، خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں (SOEs) کی نجکاری، بجلی اور گیس کے گردشی قرضے جو مجموعی 5 کھرب روپے سے تجاوز کرگئے ہیں، میں اصلاحات کے ذریعے کمی کرنا شامل ہے۔ اس کے علاوہ GDP گروتھ میں اضافے سے اضافی ریونیو حاصل کئے جاسکتے ہیں جس کیلئے آئی ٹی، زراعت اور صنعت کے شعبوں کو ترجیح دینا ہوگی لیکن FBR کے 60 فیصد سے زائد ٹیکسوں کی بھرمار کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیاں ملک چھوڑ کر جارہی ہیں جو ریونیو وصولی میں کمی، بیروزگاری اور غربت میں اضافے کا سبب بنے گا جس پر میں حال ہی میں کالم تحریر کرچکا ہوں۔

ایک رپورٹ کے مطابق جولائی سے اکتوبر 2025 کے دوران ٹیکس ریٹرنز میں صرف تنخواہ دار طبقے نے گزشتہ سال کے 60 ارب روپے کے مقابلے میں 15 فیصد زائد 69 ارب روپے ٹیکس ادا کیا ہے لیکن اس کے باوجود FBR کو ریونیو وصولی کے ہدف میں 274 ارب روپے کی کمی کا سامنا ہے لہٰذا مالیاتی نظم و ضبط برقرار رکھنے کیلئے یہ ضروری ہے کہ قرضے لینے اور مالی و مالیاتی پالیسیوں کو پارلیمنٹ سے منظور کروایا جائے۔ ورلڈ بینک نے 2023 میں 70 ممالک کی ایک فہرست شائع کی تھی جس کے مطابق پاکستان میں قرضوں کی رپورٹنگ اور گورننس نہایت کمزور ہے۔ ورکشاپ میں بتایا گیا کہ گزشتہ 4 سالوں میں وصول کئے گئے ٹیکس ریونیو گزشتہ 14 سالوں میں وصول کئے گئے مجموعی ٹیکس ریونیو سے زائد ہیں اور ٹیکس دہندگان کیلئے موجودہ ٹیکسوں کی بھرمار ناقابل برداشت ہوگئی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ ٹیکس بیس بڑھانے کیلئے معاشی بحالی کے ساتھ ٹیکس نادہندگان کو ٹیکس نیٹ میں لائے۔ اس کے علاوہ ریونیو کی وصولی اور بیرونی سرمایہ کاری میں اضافے کیلئے ہمیں افراط زر میں کمی، GDP گروتھ میں اضافہ اور روپے کی قدر میں استحکام لانا ہوگا تاکہ پاکستان کی معیشت پر سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوسکے۔ اس سلسلے میں پارلیمنٹرینز کو پبلک ڈیبٹ پر احتساب، شفافیت اور آگاہی دینا ہوگی تاکہ پبلک ڈیبٹ کی مانیٹرنگ سے اسکے اضافے کو کنٹرول کیا جاسکے۔ پارلیمنٹ کو چاہئے کہ وہ حکومت کو قرضوں کے زیادہ سے زیادہ حد کے قانون (FRDLA) پر پابند کرائے تاکہ حکومت پہلے مرحلے میں ملکی قرضے GDP کا 60 فیصد اور دوسرے مرحلے میں 50فیصد تک لانے میں کامیاب ہوسکے اور پاکستان عالمی مالیاتی اداروں کے(Debt) ڈیبٹ ٹریپ سے نکل سکے۔

تازہ ترین