میری والدہ فردوسی بیگم مظفرنگر، یوپی (بھارت) کے ایک مشہور قصبے شاہ پور بسّی میں پیدا ہوئیں۔ ماموں خلیق احمد کے مطابق اُن کی تاریخِ ولادت6؍اپریل 1891ء تھی۔ والدہ کے پانچ بھائی اور ایک بہن تھی۔ امّاںجی نے بچپن ہی میں اپنے ابّاجی سے قرآن مجید کے ترجمے کی تعلیم حاصل کی۔ بہشتی زیور کے علاوہ اُردو کی ایسی کتب پڑھیں جن میں شریعت کے احکام و مسائل بیان ہوئے ہیں۔ اپنے والدمحترم سے اُردو اَور رِیاضی کی ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ امّاںجی کو تختی لکھنے کی اجازت نہ تھی۔ یہی وجہ ہے تھی کہ امّاںجی اُردو کی کتاب پڑھ اور سمجھ سکتی تھیں، لیکن لکھنا اُنہیں بالکل نہیں آتا تھا۔ اُس دور میں مسلمان والدین عموماً اپنی بیٹیوں کو لکھنا اِس لیے نہیں سکھاتے تھے کہ مبادا شادی کے بعد سسرال میں معمولی اَن بن کے بارے میں بذریعہ تحریر والدین کو مطلع کرتی رہیں۔ اِس سے نہ صرف والدین اذیت میں مبتلا ہوں گے بلکہ خاندانی تعلقات میں بھی دراڑ پڑنے کا خطرہ لاحق رہے گا۔
ناناجی کے فقیرانہ مزاج کی وجہ سے اُن کے گھر میں ہمیشہ عسرت و تنگدستی کا عالم رہتا، لیکن غربت و اِفلاس کے ماحول میں امّاںجی نے محنت و مشقت، اپنے ہاتھ سے کام کرنے اور سلیقے کے ساتھ تھوڑی چیز سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اُٹھانے کی عادت اور صلاحیت پیدا کر لی۔ قرآن مجید کے مطالعے، ناناجی کی روحانی و اَخلاقی تربیت اور گھر میں تنگدستی کے ماحول نے امّاںجی میں یہ جذبہ بچپن ہی سے پیدا کر دیا تھا کہ وہ کمزوروں، ضعیفوں اور بیماروں کی خدمت کو اَپنا شعار بنا لیں۔ ماموں خلیق احمد کی روایت کے مطابق امّاںجی محلے کی بوڑھی اور ضعیف عورتوں کی خدمت کر کے بےحد خوشی محسوس کرتیں۔ اُنہیں نہلاتیں، کپڑے اور سر دھو کر صاف کرتیں، اُن کے کپڑے سی دیتیں۔ اگر کوئی خاتونِ خانہ بیمار ہوتی، تو اُسکے گھر جا کر کام کر دیتیں۔ بیمار اَور ضعیف عورتوں کے ہاتھ پاؤں دبا کر اُنہیں آرام و رَاحت پہنچانے کی کوشش کرتیں۔ اِس طرح اُن کی دی گئی دعائیں حاصل کر کے اپنی خوشیوں میں بےپناہ اِضافہ کر لیتیں۔ شادی تک اُن کا یہی طرزِعمل رہا۔ اِس طرح دین کی محبت کے ساتھ خدمتِ خلق کا شوق بھی اُن کی طبیعت کا لازمی عنصر بن گیا۔
والدہ کی ٹھیکری کی منگنی تھی۔ تب اِس کا رواج عام تھا۔ اِس رواج کا تعارف یہ ہے کہ جب خاندان میں کسی کے ہاں بچے کی آمد ہوتی، تو آپس میں پہلے سے ہی رشتے طے کر لیے جاتے۔ جب بچے کی پیدائش ہوتی، تو جس خاندان کو رشتہ مطلوب ہوتا، اُس گھر کی بزرگ عورت آتی اور ایک مٹی کی کنالی جو زچگی کے دوران دائی استعمال میں لاتی، میں کچھ پیسے ڈال کر رشتہ پکا کر لیتی۔ اِسی طرح میری والدہ کا بھی والد سے رشتہ بچپن سے طے تھا۔
ایک بار وَالدہ نے اپنی شادی کا احوال سنایا۔ جب والدصاحب پٹواری ہو گئے، تو تعیناتی کے مقام پر تنہا رہنے لگے۔ نکاح ہو چکا تھا۔ ایک دن بڑے بھائی عبدالستار نے چھوٹے بھائی سے کہا ’’چلو، چچی کے پاس چلتےہیں اور تمہاری رخصتی کروا دَیتے ہیں۔‘‘ (میری والدہ اَور وَالد آپس میں تایازاد تھے)۔ میرے تایاجان والد کو لے کر بغیر اطلاع اُن کے سسرال شاہ پور پہنچ گئے، مگر اتنی ہمت نہ ہوئی کہ گھر کے اندر دَاخل ہوں۔ ڈرتےڈرتے دیوار سے جھانکا، تو نانی نے دیکھ لیا اور جا کر خود دونوں کو اَندر لے آئیں۔ اگلے دن چند عزیز رشتےداروں کی موجودگی میں والدہ کو رُخصت کر دیا گیا۔
1911ء میں والدصاحب کا تبادلہ ہو گیا اور وُہ منگالہ آ گئے۔ امّاںجی چار سال وہاں مقیم رہیں۔ دو بیٹیاں وہیں پیدا ہوئیں۔ امّاںجی کی پرورش یوپی میں ہوئی تھی اور منگالہ پنجاب کے اُس حصّے میں تھا جسے باگڑ کہا جاتا تھا۔ وہاں باگڑی زبان بولی جاتی تھی۔ دونوں علاقوں میں تہذیب، بول چال، رہن سہن اور طرزِمعاشرت میں نمایاں فرق تھا، لیکن امّاںجی نے خداداد صلاحیتوں کی بدولت اُس غیرمانوس ماحول سے جلد ہم آہنگی پیدا کر لی۔ گاؤں کی خواتین سے میل جول کچھ اِس نہج پر استوار کر لیے کہ سالہاسال گزر جانے کے باوجود اُن کی شادابی اور تازگی میں کوئی کمی نہ آئی۔
مجھے یاد ہے، تقسیمِ ہند تک کچھ بزرگ خواتین منگالہ سے آیا کرتی تھیں۔ امّاںجی بڑی محبت و شفقت سے ملتیں۔ وہ کئی دن ہمارے گھر ٹھہرتیں۔ آپس میں حقیقی بہنوں کی طرح دُکھ سُکھ کی باتیں کرتیں، تحائف کا تبادلہ ہوتا۔ ہم سب بہن بھائی بھی اُن کا بےحد احترام کرتے۔ آج خیال آتا ہے کہ امّاںجی کے خلوص میں کتنی شیرینی، اُن کے طرزِعمل میں کتنی جاذبیت اور میل جول اور تعلقات میں کتنی سادگی اور پاکیزگی تھی کہ چالیس برس سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے باوجود اُن کی مہک اُسی طرح تازہ ہی رہی۔
1915ء میں ابّاجی کا تبادلہ ضلع کرنال کے گاؤں ہابڑی ہو گیا۔ یہ مسلمان راجپوتوں کا گاؤں تھا جہاں کے باشندے علم کی روشنی سے محروم تھے، لیکن تھے بہت جفاکش اور محنتی، زبان کے دھنی اور قول کے پکے۔ اِس گاؤں میں امّاںجی کا قیام تقریباً پندرہ برس رہا۔ ہم چاروں بھائیوں کی پیدائش اِسی گاؤں میں ہوئی۔ اِس گاؤں بلکہ پورے ضلع میں ہمارا کوئی رشتےدار نہ تھا، لیکن جب ذرا ہوش سنبھالا، تو چاروں طرف سگے رشتوں جیسی اپنائیت محسوس کی۔
امّاںجی کو قرآن مجید سے گہرا لگاؤ تھا۔ اولاد کو دِینی تعلیم دلوانے کا پورا اِہتمام کیا۔ بیٹیوں کو گھر پر خود ناظرہ قرآن پڑھایا اور بیٹوں کو قاری صاحب سے تعلیم دلوائی۔ پانچ سال کی عمر میں جب بیٹوں کو سکول داخل کروایا جاتا، تو ساتھ ہی مسجد میں قاری صاحب کے پاس قرآن کی تعلیم کے لیے بھی بٹھا دیتیں۔ سردیوں میں بھی ہم نمازِ فجر جامع مسجد میں ادا کرتے، قاری صاحب سے قرآن پاک کا سبق لے کر سوا آٹھ بجے تک یاد کر لیتے۔ وہاں سے فارغ ہو کر گھر آتے۔ باسی روٹی، دہی اور مکھن کے ساتھ کھا کر اسکول چلے جاتے اور آدھی چھٹی کے وقت گھر آ کر کھانا کھاتے۔ گرمیوں کے موسم میں نمازِ ظہر سے نمازِ عصر تک قرآن پاک کی تعلیم ہوتی۔ جونہی ہم چوتھی جماعت پاس کرتے، ناظرہ قرآن مجید بھی مکمل کر لیتے۔ قاری صاحب کے قرآن پڑھانے کا طریقہ نہایت مؤثر اور سائنسی تھا۔ اُن سے جو بچہ ناظرہ قرآن پڑھ لیتا، اُس کی تلاوت میں بلا کی روانی آ جاتی۔