• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند روز پہلے غزہ میں خدمات انجام دے کر آنے والے عبد الرزاق ساجد کہنے لگے کہ’’مجھے غزہ کا وہ ضعیف شخص نہیں بھولتا جو اپنے تین پوتوں کو قبر میں رکھ کے ان سے کہہ رہا تھا، میرے پیارے بچو ابھی تھوڑی دیر بعد رسول پاکﷺ تشریف لائیں گے تو ان کی خدمت میں صرف یہ عرض کرنا کہ جب ہم پر موت برس رہی تھی تو آپ کی امت خاموش تھی، ہم پر بم برسائے جا رہے تھے تو آپ کی امت کے لوگ امن معاہدوں پر خوشیاں منا رہے تھے، بس ہم یہی کہنا چاہتے ہیں کہ ہم دین اسلام کی محبت اور آپ کے عشق میں موت کے ذائقے کو چکھ آئے ہیں، ہمارے بہت سے دوسرے ساتھی اپنے معصوم چہروں کے ساتھ گلاب جیسا کفن پہن کر قبروں میں اتر چکے ہیں مگر آپ کی امت خاموش ہے‘‘۔ آنسوؤں کی اس گھڑی میں میاں چنوں کا درویش صفت کہنے لگا ’’فلسطینی بوڑھے کی باتیں مجھے سونے نہیں دیتیں، میں اکثر سوچتا رہتا ہوں بطور امتی سرکار دو عالمﷺ کے سامنے کیا جواب دیں گے؟

اگرچہ میرے ادارے المصطفیٰ ویلفیئر کے لوگ مشکل ترین حالات میں غزہ میں خوراک اور ادویات پہنچا رہے ہیں مگر مجھ پر اور بھی چیزیں قرض ہیں، میں ان چیزوں کو قرض نہیں فرض سمجھتا ہوں‘‘۔ یہ باتیں سن کر مجھ ایسا خاکسار جو فیض اور اقبال کی دھرتی میں پیدا ہوا، روئے بغیر نہ رہ سکا لیکن اللہ کا شکر ہے میری دھرتی کے دونوں شاعروں کی شاعری میں حرف ندامت اس لئے نہیں کہ وہ اس عہد میں فلسطینیوں کے حق میں شعر کہتے رہے جب صہیونی نفرت کے بیج بو رہے تھے۔ میرے شاعروں نے توجہ دلائی مگر امت دیکھتی رہی، امت کے بڑے بڑے رہنما دیکھتے رہے، ان کی آنکھوں کے سامنے صہیونیت کی نفرت بھری فصل تیار ہوئی، اس نفرت بھری فصل کے لہلہاتے کھیتوں پر ظلم کے پھول اگے، اب ان پھولوں کی ظالمانہ مہک پوری ارض فلسطین میں پھیل چکی ہے۔ فلسطینیوں کی گلیوں میں بارود کی بو ہے، بموں کی برسات ہے اور موت کا رقص ہے۔ افسوس ناک اور المناک پہلو یہ ہے کہ ظالمانہ راج میں موت کے اس رقص پر پھول برسانے والوں میں مسلمان بھی شامل ہیں۔ فلسطینیوں کی شہادتوں پر امن کے گیت گانے والوں میں بھی مسلمان پیش پیش ہیں، جبر کی تصویروں میں رنگ بھرنے والوں میں بھی مسلمان شامل ہیں، ظالموں کی توصیف کرنے والوں میں بھی مسلمان شامل ہیں ۔ سچ پوچھئے تو شرم الشیخ میں جتنے بھی مناظر دیکھے گئے ان سے شرمساری اور رسوائی عیاں تھی، کس طرح مسلمان ملکوں کے حکمران دربار میں پیش میں ہو کر اپنے دنیاوی سرپرست کو خوش کر رہے تھے۔ کیا ساری دنیا کی ندامت ہمارے حصے ہی میں لکھی گئی ہے ؟ غزہ کے مقتل کے انچارج نیتن یاہو کی تعریفیں کرنے والے ڈونلڈ ٹرمپ کی توصیف کیلئے ہم ہی رہ گئے ہیں ؟ ایسی رسوائیوں پر کف افسوس ہی ملا جا سکتا ہے۔ تاریخ صرف کردار یاد رکھتی ہے، آپ کا کردار ایک آزاد منش اور بہادر انسان کا کردار ہے یا پھر غلامی کے طوق پہنے ہوئے ایک درباری کا ۔ افسوس! ذاتی مفادات کی محبت میں ہمارے حکمرانوں نے ثانوی کردار پسند کیا۔

میں محمد عربی ﷺ کے ادنیٰ سے غلام کے طور پر مسلمان ملکوں کے حکمرانوں کے چہرے دیکھتا ہوں تو سوائے ندامت کے کچھ یاد ہی نہیں آتا، جدید دنیا معیشت کو بڑی اہم سمجھتی ہے لیکن معیشت سے کہیں اہم نظریہ ہے۔ ایران آج ہی مصلحت کے گیت گا کر اپنی اقتصادی پابندیاں ختم کروا سکتا ہے مگر ایرانیوں نے معیشت پر نظریے کو ترجیح دی ہے، معیشت مر سکتی ہے، نظریہ دفن نہیں ہو سکتا۔ یمن کے مسلمان بھی غلامی کا طوق پہن کر اچھے ملبوسات پہن سکتے ہیں مگر بہادر یمنی مسلمان نظریے کے ساتھ کھڑے ہیں۔

میں یمن اور ایران کے حکمرانوں کو بڑے بڑے امیر ملکوں کے عرب حکمرانوں سے بہتر سمجھتا ہوں، باقی رہ گئے ہم! تو ہم ویسے ہی بیگانی شادیوں پر ڈھول بجاتے رہتے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مسلمان ملکوں کے غلام حکمرانوں کو قرآن کا کوئی حکم یاد نہیں رہا؟ کیا یہ سب لوگ رسول خدا کے فرمودات کو بھول گئے؟ یہ غزہ کے معاملے پر روزِ قیامت کیا کہیں گے؟ انہیں تو چاہیے تھا کہ غزہ کے لوگوں کیلئے کھڑے ہو جاتے، ان کا تحفظ کرتے، حماس کی وکالت کرتے کہ بقول زاہد فخری۔

دیا جلا کر جلائے رکھنا ہی زندگی ہے

علم اٹھا کر اٹھائے رکھنا ہی زندگی ہے

تازہ ترین