ہمارے ہاں روایت ہے کہ پالیسی ساز کسی کمزوری یا مجبوری کی وجہ سے ایک مفروضہ گھڑ لیتے ہیں پھراس مفروضے کو قوم کے سامنے ایک حقیقت کے طور پر پیش کرنے لگتے ہیں۔ ایسا ہی ایک مفروضہ ہمارے پالیسی سازوں نے یہ تراشا تھا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ اس مفروضے کے حق میں صرف ایک دلیل موجود تھی کہ افغان طالبان نے کبھی پاکستان میں کوئی کارروائی نہیں کی۔ میں خود بھی اس حقیقت سے آگاہ ہوں کہ افغان طالبان کیخلاف پاکستان میں کئی کارروائیاں ہوئیں۔ ملا برادر سے لے کر ملا عبیدﷲ اخوند تک ان کے کئی رہنمائوں کو گرفتار کیا گیا لیکن بوجوہ افغان طالبان پاکستان میں کسی کارروائی میں براہ راست ملوث نہیں پائے گئے لیکن اسکے باوجود میں 2008 سے اپنے کالموں اور ٹی وی پروگراموں میں تکرار کے ساتھ یہ عرض کرتا رہا کہ افغان اور پاکستانی طالبان ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ اس موقف کے دلائل یہ ہیں کہ :
۱۔مولوی نیک محمد، عبدﷲ محسود اور بیت ﷲ محسود وغیرہ نے حکومت پاکستان کیخلاف جنگ اس بنیاد پر شروع کی کہ انکے بقول پاکستان نے طالبان کی حکومت ختم کرنے کیلئے امریکہ کا ساتھ دیا۔ 2۔ تحریک طالبان پاکستان کے تمام رہنمائوں کی جب بیعت ہوجاتی تھی تو وہ فوراً افغان طالبان کے امیرالمومنین کی غائبانہ بیعت بھی کرلیتے تھے۔ اب جبکہ طالبان کے مختلف دھڑے ایک بار پھر مفتی نور ولی کی قیادت میں اکٹھے ہوئے اور مشترکہ طور پر ان کی بیعت کی گئی تو اسی مجلس(میرے پاس ویڈیو موجود ہے) میں مفتی نور ولی اور انکے ساتھیوں نے افغان طالبان کے امیرالمومنین ملا ہیبت اﷲ کو امیرالمومنین تسلیم کرنے کی بیعت کی۔ 3۔افغان طالبان نے پاکستان کے اندر ٹی ٹی پی، القاعدہ یا جماعت الاحرار کی کارروائیوں میں حصہ نہیں لیا لیکن ٹی ٹی پی کے لوگ کئی محاذوں پر افغان طالبان کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔ وہ کارروائی جس میں صوبہ خوست کے اندر امریکی سی آئی اے کے نصف درجن اہم ترین اہلکار مارے گئے، اسکا منصوبہ حکیم اللہ محسود نے بنایا تھا اور اس میں اپنے آپ کو اڑانے والے فدائی ابو دجانہ نے کارروائی پر جانے سے قبل حکیم ﷲ محسود کیساتھ ویڈیو پیغام ریکارڈ کروایا تھا۔4۔افغان طالبان، ٹی ٹی پی، جماعت الاحرار اور القاعدہ کا جہادی لٹریچر ایک ہے ۔ان کے جہاد، قتال، مرتد اور دیگر مذہبی تصورات ایک ہیں۔ سب ایک دوسرے کے آڈیو ویڈیو مواد سے استفادہ کرتے ہیں ۔
5۔ ٹی ٹی پی کے ہر لیٹر پیڈ کے ایک طرف امیر (بیت اﷲ محسود، حکیم اﷲ محسود، ملا فضل ﷲ یا مفتی نور ولی محسود ) کا نام لکھا ہوتا ہے اور دوسری طرف امیرالمومنین (ملامحمد عمر، ملا اختر منصور اور ملا ہیبت اﷲ) لکھا ہوتا ہے۔ اس پورے عرصے میں کبھی ایک بیان میں بھی افغان طالبان نے پاکستانی طالبان کو اس سے منع نہیں کیا کہ وہ ان کیلئے امیرالمومنین کا نام استعمال نہ کریں۔6۔جب حکیم اﷲ محسود ڈرون حملے میں نشانہ بنائے گئے تو افغان طالبان نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر ایک بیان جاری کیا جس میں انکی خدمات کو زبردست الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہوئے اُنہیں شہید قرار دیا ۔7۔ ٹی ٹی پی کے کئی لوگ افغانستان کے کئی ایسے علاقوں میں مقیم رہے جو افغان طالبان کے زیر کنٹرول تھے لیکن ٹی ٹی پی کی تشکیل سے لے کر آج تک کسی ایک جگہ سے بھی ٹی ٹی پی اور افغان طالبان کے کسی جھگڑے یا تنائو کی خبر نہیں آئی جبکہ دوسری طرف داعش کے خلاف افغان طالبان نے بھرپور جنگ لڑی۔
8۔ پاکستانی ریاست کے خلاف مزاحمت کا آغاز کرنے والے مولانا نیک محمد افغان طالبان کے سابق دور میں کابل کے مغرب میں کارغہ کیمپ کے انچارج تھے جبکہ بیت اﷲ محسود، ملا داداﷲ کے ساتھ رہ کر کئی سال تک افغانستان کے اندر جنگ لڑچکے تھے۔ یہ تو چند حقائق ہیں لیکن اگر کسی نے دونوں کے آپس کے تعلق کی اصل نوعیت جاننی ہو تو وہ تحریک طالبان پاکستان کے موجودہ امیر مفتی نورولی کی کتاب ”انقلاب محسود‘‘کا مطالعہ کرلے۔
اب جبکہ افغانستان سے امریکی افواج کا انخلا مکمل ہونے کو ہے اور اس انخلا سے قبل افغان طالبان، افغانستان کے حکمران بن چکے ہیں تو پاکستان میں بالعموم اور قبائلی اضلاع میں بالخصوص پاکستانی عسکریت پسندوں کی کارروائیاں بڑھ گئی ہیں۔ چنانچہ سوال پیدا ہونے لگا ہے کہ پاکستانی عسکریت پسند کیا کریں گے اور ان کے ساتھ کیا کیا جائے گا؟ افغان طالبان نے پاکستان سمیت تمام پڑوسی ممالک کو یقین دلایا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کسی ملک کیخلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے جبکہ دوسری طرف پاکستان کے مطالبے پر افغان طالبان کے امیرالمومنین نے ٹی ٹی پی کے ایشو سے متعلق ایک کمیشن بھی تشکیل دیا ہے تو یہاں لوگوں کی اکثریت یہ توقع لگائے بیٹھی ہے کہ افغان طالبان، پاکستانی طالبان کو پکڑ پکڑ کر پاکستان کے حوالے کردیں گے حالانکہ ایسا کبھی نہیں ہوگا۔‘‘
یہ گزارشات آج سے چار سال قبل (25 اگست 2021 کو روزنامہ جنگ کے اسی صفحے پر ”پاکستانی طالبان ۔پس چہ باید کرد“ کے زیرعنوان کالم میں کی گئی تھیں۔ یہ ان درجنوں کالموں میں سے ایک ہے جن میں وقتاً فوقتاً میں اس حقیقت کو اجاگر کرتا رہا کہ افغان طالبان اور پاکستانی طالبان ایک ہیں لیکن دوسری طرف پاکستان کے پالیسی ساز، مذہبی لیڈر ، دفاعی ماہرین اور اہل دانش اس بات پر مصر رہے کہ افغانی اور پاکستانی طالبان الگ الگ ہیں ۔ افغان طالبان اچھے ہیں اور پاکستانی طالبان برے ہیں ۔ یہ پالیسی پندرہ سال جاری رہی ۔ پاکستانی میڈیا میں اس کا غلغلہ رہا ۔ رحیم اللہ یوسفزئی مرحوم اور یہ عاجز جو ان دونوں کے ایک ہونے کی بات کیا کرتے تھے اپنی رائے کے اظہار میں ایسے تنہا تھے کہ بعض اوقات ہمیں اپنی رائے کے بارے میں شک ہوجاتا تھا۔ امریکہ کے خلاف جنگ کے بعد طالبان کی حکومت کے چار سال ہوگئے ہیں۔ لیکن آج بھی کسی نہ کسی سطح پر کنفیوژن برقرار ہے ۔تاہم اکثریت کی آنکھیں کھل گئیں۔ لیکن اب ہم دوسری انتہا پر چلے گئے ۔پتہ نہیں ایک انتہا سے دوسری انتہا پر جانے کا سفر ہمیں کہاں لے جائے گا؟