دنیا کے سب سے بڑے کمرشل، فنانشل اور ثقافتی مرکز نیویارک سٹی نے پہلی دفعہ ایک مسلمان ، جنوبی ایشیائی نژاد نوجوان ظہران ممدانی کو اپنا میئر منتخب کر لیا ہے ۔ ریپبلکن پارٹی ، سرمایہ دار لابیوں اور اسرائیل نواز حلقوں کی شدید مخالفت کے باوجود چونتیس سالہ ممدانی نے وہ کر دکھایا جو ناقابل تصور سمجھا جا رہا تھا ۔ سوشلسٹ ڈیموکریٹ کہلانے والے ظہران ممدانی سات برس کی عمر میں امیگرنٹ والدین کے ہمراہ یوگنڈا سے امریکہ آئے ، اور محنت و خدا داد صلاحیتوں سے کم عمری میں ریاستی اسمبلی کےممبر بن گئے ۔ سیاسی سفر میں سینیٹر برنی سینڈرز اور کانگریس وومن الیگزینڈریا کورٹیز جیسے ترقی پسند راہنماؤں نے ظہران ممدانی کو بھرپور سپورٹ کیا اور پھر اگلی منزل کیلئے عظیم شہر نیویارک میں رہنے والے تمام مذاہب اور قومیتوں کے لوگوں نے انہیں پچاس فیصد سے زائد ووٹ دے کر میئر کیلئے منتخب کیا۔
ظہران ممدانی نے اپنی کمپین کے دوران اپنے مسلمان ہونے پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے لبرل آزاد خیال نظریات کا پرچار کیا، وسائل کی تقسیم ، عورتوں اور ٹرانس جینڈر کے حقوق کی بات کی۔ ممدانی نے نیویارک کے باسیوں سے وعدہ کیا کہ وہ شہر کو سب کیلئے قابل استطاعت بنائیں گے، مکانوں اور فلیٹوں کے کرایوں میں اضافے کو روکیں گے، مفت سفری سہولتیں اور کام پر جانے والی ماؤں کے چھوٹے بچوں کو مفت چائلڈ کیئر اور ہیلتھ کیئر فراہم کریں گے۔ ظہران ممدانی کے مسلم بیک گراؤنڈ اور ان کی طرف سے اسرائیلی حکومت کی ظالمانہ کارروائیوں کی بھرپور مخالفت نے انہیں سفید فام قدامت پسند امریکیوں اور انتہاپسند یہودیوں کا نشانہ بنائے رکھا، تاہم ممدانی نے دلیری اور فہم و فراست سے کام لیتے ہوئے نہ صرف سفید فام امریکیوں کو قائل کیا بلکہ اعتدال پسند یہودیوں کو بھی یقین دلایا کہ میئر بننے کے بعد وہ نیویارک کے تمام شہریوں کی بلا تفریق خدمت کریں گے اور کسی بھی مذہب یا قومیت سے تعلق رکھنے والے سے زیادتی نہیں ہونے دیں گے۔
نیویارک شہر میں یہودیوں کی اسرائیل کے بعد دوسری بڑی آبادی ہے جو متمول اور اثر رسوخ کی حامل سمجھی جاتی ہے۔ اتنی بڑی تعداد اور طاقت ہونے کے باوجود اس شہر سے نتن یاہو کی پالیسیوں کا ناقد مسلمان ظہران ممدانی میئر اس لیے منتخب ہو گیا کہ امریکہ کی نئی جنریشن ماضی کے واقِعات کی بنیاد پر اب اسرائیل کی مظلومیت کو مزید تسلیم کرنے پرتیار نہیں اور بائیں بازو کے نوجوان یہودی بھی اسرائیلی حکومت کی توسیع پسندانہ پالیسیوں سے ناخوش نظر آتے ہیں۔ ظہران ممدانی نے سب سے بڑی بروکلین بارو سے اکثریتی ووٹ حاصل کیے جہاں آرتھوڈوکس اور دوسرے یہودیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ یروشلم پوسٹ کے مطابق تقریباً تیس فیصد یہودیوں نے ممدانی کو ووٹ دیا۔ صدر ٹرمپ اور انکی پارٹی نے سابق گورنر اینڈریو کومو کو سپورٹ کیا اور اس کو جتوانے کیلئے موجودہ مئیر ایرک ایڈمز کو مقابلے سے دستبردار کروایا، تاہم ظہران ممدانی کی مسحور کر دینے والی شخصیت اور کھری بات کرنے کے دوٹوک انداز کی وجہ سے انہوں نےنہ صرف ڈیموکریٹک پرائمری میں ایک مضبوط امیدوار اینڈریو کومو کو شکست دی بلکہ مئیر کے الیکشن میں بھی دوبارہ آزاد امیدوار کومو اور ریپبلکن کرٹس ڈی سلوا کو بھاری مارجن سے شکست دی۔
ممدانی کی جیت اس نظام کی برداشت ، تنوع اور جمہوری طاقت کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک سال قبل امریکی عوام نے صدر ٹرمپ کو ان کے بے ساختہ انداز، مضبوط ارادوں اور دیانت دارانہ طرز سیاست کی وجہ سے منتخب کیا تھا، انہوں نے امیگریشن کنٹرول، قیمتوں میں کمی، اکانومی میں بہتری ، دنیا میں امن اور امریکہ کو عظیم طاقت بنانے کا اعلان کیا تھا۔ آج اگر ہم امریکی حکومت کی ایک سالہ کارکردگی کا جائزہ لیں تو امریکی عوام کی بڑی تعداد موجودہ پالیسیوں سے مطمئن نظر نہیں آتی، اور امریکی عوام کا جھکاؤ جو دائیں طرف جا رہا تھا دوبارہ بائیں طرف جاتا نظر آ رہا ہے، یہ سب ریپبلکن کیلئے فکرمندی کا باعث ہو سکتا ہے، خصوصاً جب حالیہ گورنرز، میئرز اور دوسرے الیکشنز میں ڈیموکریٹس نے کامیابیاں سمیٹی ہیں اور اگلے سال مڈ ٹرم الیکشن ہونے ہیں ، جس میں ایوان نمائندگان کے تمام ممبران اور سینٹ کے ایک تہائی ممبر دوبارہ الیکشن میں صف آرا ہوں گے ۔ اگر نومنتخب مئیر ممدانی نیویارک کے شہریوں کو ریلیف دیتے ہیں، ایجوکیشن کا نظام بہتر کرتے ہیں، وائلنٹ کرائم اور نفرت پر مبنی جرائم کنٹرول کرتے ہیں ، سٹی گورنمنٹ سے کرپشن کا خاتمہ کر کے اسے اچھی ٹیم کیساتھ فعال کرتے ہیں ، تو وہ ملکی سیاست میں بہت آگے جا سکتے ہیں ۔مگر انہیں اپنے جارحانہ ارادوں اور منصوبوں پر احتیاط سے کام لینا ہو گا، شہر کے بڑے کاروباری ادارے،فارچون کمپنیاں اورامیر سرمایہ دار پہلے ہی سب سے زیادہ ٹیکس دے رہے ہیں، اور نیویارک کی تعمیر و ترقی کیلئے مدد کا ہاتھ بڑھانے کو تیار ہیں ، ان پر ویلتھ ٹیکس لگانے سے پہلے ان سے بات کرنا اور انہیں گریٹ سٹی کی ترقی میں ساتھ شامل کرنا ضروری ہے ۔ نیویارک شہر کے عوام کی بہتری اور اقلیتوں خصوصاً مسلمانوں کی ترقی و خوشحالی کیلئے ممدانی کو امریکہ کے صدر کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کیلئے پہل کرنی چاہیےاور انہیں مئیر کا منصب سنبھالنے کے بعد صدر ٹرمپ کو نیویارک کے دورے کی دعوت دینی چاہیے۔
حالیہ الیکشن میں نیویارک کے علاوہ امریکی ریاست ورجینیا سے بھی امریکہ کی تاریخ میں پہلی بار ایک مسلمان خاتون غزالہ قریشی نے پوری ریاست سے براہ راست ووٹ لیکر لفٹیننٹ گورنر کا الیکشن جیت کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ نفرتوں اور مقابلوں کے دور میں امریکی معاشرے اور سسٹم کو داد دینی پڑتی ہے کہ تمام تر تعصبات کے باوجود امریکی عوام اور ان کے سیاسی شعور نے مسلمان امیگرنٹ فیملی کے چونتیس سالہ نوجوان کو اسکی صلاحیتوں کو دیکھتے ہوئے، اس پر اعتماد کرتے ہوئے اپنے سب سے بڑے شہر اور دنیا کے فنانشل کیپٹل کی کنجی تھما دی ہے ۔
(صاحب مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)