• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آئینی ترمیم کے اہم نکات سامنے آ چکے۔ ان میں مالی وسائل کی تقسیم کے فارمولے پر کوئی فیصلہ شامل نہیں۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان قومی مالیاتی کمیشن کا پہلا اجلاس بلانےکا حتمی شیڈول طے نہیں ہو سکا۔ این ایف سی ایوارڈ کیلئے 27ویں آئینی ترمیم میں کوئی تجویز شامل نہیں جسکے بعدنیشنل فنانس کمیشن جیسے آئینی فورم کی ذمہ داری ہے کہ وہ مرکز اور صوبوں میں وسائل کی تقسیم کے فارمولے کو اتفاق رائے کیساتھ حتمی شکل دے۔ موجودہ حکومت کو اقتدار سنبھالے ڈیڑھ سال سے زائدکا عرصہ گزرچکا لیکن ابھی تک قومی مالیاتی کمیشن کا کوئی اجلاس منعقد نہیں ہو سکا۔ جبکہ قومی مالیاتی کمیشن کی تشکیل تو ہو چکی ہے۔ سینٹ آف پاکستان کی خزانہ کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے مرکز اور صوبوں کے نمائندوں کو اپنی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کیلئے فیصلہ کیا، اسکے فوراً بعدوزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اگست 2025 ء کے دوران این ایف سی کا پہلا اجلاس منعقد کرنے کا فیصلہ کیا لیکن سیلاب کی صورتحال کے پیش نظر اس اجلاس کو ملتوی کرنا پڑا۔ اب وزارت خزانہ نے رواں ماہ کے دوران پہلا اجلاس منعقد کرنے کیلئے وزیراعظم ہاؤس سے اجازت طلب کی ہے لیکن ابھی تک رسمی اجلاس بلانے کا شیڈول طے نہیں ہو سکا۔این ایف سی ایک آئینی فورم ہے جسکے اندر اتفاق رائے کے بغیر کوئی فیصلہ نہیں ہوسکتا ۔ مرکز اور صوبوں کے درمیان و سائل کی تقسیم پر گرما گرم بحث متوقع ہےدونوں اطراف دلائل کی تلاش میں ہیں تاکہ اپنے مفادات کا تحفظ کر سکیں۔ آئیےسب سے پہلے مرکز کی طرف سے اٹھائے جانیوالے متوقع اعتراضات کا جائزہ لیتے ہیں۔وزارت خزانہ نے تیار کردہ دلائل میں گزشتہ پندرہ سال کے ڈیٹا سے ثابت کرنے کی کوشش کی کہ قرضوں کا بوجھ جی ڈی پی کے تناسب سے خاصہ کم ہو تا اگر صوبوں کو2010-11 ء کے این ایف سی ایوارڈ میں 60فیصد کا حصہ نہ دیا جاتا۔ جس سےمرکز کنگال ہو گیا اور صوبوں کو مالی وسائل کی وافر فراہمی کی گئی ۔ اس وقت پاکستان پر قرضوں کا بوجھ 75فیصد جی ڈی پی کے برابر ہے جو پارلیمنٹ سے منظور شدہ (FRDLA) کی تصدیق شدہ حد سے زیادہ ہے یہ حد 60 فیصد پر رکھی گئی ہے جو ہر سال کم ہونی چاہئے۔ دوسری طرف سماجی اور انسانی ترقی تمام حوالوں سے تنزلی اور انحطاط کا شکارہے ۔وزارت خزانہ نے چند دن قبل پہلی سہ ماہی کے مالیاتی امور کی رپورٹ جاری کی جس میں واضح نشاندہی ہوئی کہ مرکز کے وسائل جو ایف بی آر کے ٹیکسوں اور ساتھ ساتھ نان ٹیکس ریونیو کی صورت میں موجود ہیں قرضوں کی ادائیگی کیلئے کافی نہیں۔ حالانکہ اسٹیٹ بینک کی جانب سے نان ٹیکس ریونیو کی پاکستان کی طرف ادائیگی کی وجہ سے مالی صورتحال بہتر نظر آتی ہے لیکن مرکز اس بات پر مجبور ہے کہ پہلی سہ ماہی کے دوران تقریباً 2200ارب روپے کا قرضہ لیکر دفاع، ترقیاتی منصوبوں ،تنخواہوں اور پنشن کی ادائیگی،حکومتی امور کو چلانے، سبسڈی اور گرانٹس سمیت تمام اخراجات پورے کرے۔ان دلائل کی بنیاد پر مرکز کی خواہش ہے کہ صوبوں کے حصے میں کمی کی جائے جو اس وقت گرانٹس اور دوسری ٹرانسفر ملا کر 60 فیصد ہے جبکہ مرکز کے پاس صرف 40 فیصد حصہ باقی رہ جاتا ہے۔

اگر بغور جائزہ لیا جائے تو اٹھارہویں ترمیم کے بعد بھی مرکز نے ان امور پر اخراجات جاری رکھے جو صوبوں کو منتقل کر دیئے گئے تھے مثال کے طور پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام (BISP) کیلئے رواں مالی سال کے دوران 716 ارب روپے مختص کیے گئے ۔ غربت کا ایشو صوبوں کو منتقل ہو چکا ہے لیکن BISP کے اخراجات مرکز نے اپنے ذمہ لیے ہوئے ہیں ۔ اسکے علاوہ پبلک سیکٹر ڈویلپمنٹ پروگرام میں ابھی تک صوبائی نوعیت کے اربوں روپے کے منصوبے شامل ہیں اگر بغورجائزہ لیاجائے تو 1200سے 1300ارب روپے کے منصوبے فوری طور پر صوبوں کو منتقل کیے جاسکتے ہیں۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن کیلئے مختص اربوں روپے مالیت کے اخراجات صوبوں کو منتقل کئے جاسکتے ہیں ایک محتاط اندازے کے مطابق این ایف سی کو چھیڑے بغیر مرکز 1000 ارب سے لیکر 1500ارب کے اخراجات صوبوں کے حوالے کر سکتا ہے اس کیلئے فوری فیصلہ سازی کی اشد ضرورت ہے۔ دوسری طرف اگر صوبوں کی مالی صورتحال کا جائزہ لیاجائے تو ٹیکس میں انکا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جبکہ یہ کم از کم 3 فیصد تک ہونا چاہئے ۔

مملکت خدا داد کے آئین کے تناظر میں چند اہم ترین ٹیکس صوبوں کے دائرہ اختیار میں ہیں جن میں خدمات پر جی ایس ٹی، زرعی انکم ٹیکس پراپرٹی ٹیکس اور ایکسائز ٹیکس وغیرہ شامل ہیں لیکن صوبے وسائل کے حوالے سے پیش رفت میں دلچسپی نہیں دکھا رہے۔ چاروں صوبوں نے اپنے ٹیکس کے ادارے قائم کرلئے ہیں اور خدمات پر جی ایس ٹی کے حوالے سے پیش رفت کر رہے ہیں لیکن انکو ٹیکس وصولیوں پر مزید توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔ وزارت خزانہ کے سابقہ مشیر اور معیشت دان ڈاکٹر خاقان نجیب کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اسوقت قومی مالیاتی کمیشن کے فارمولے میں چند بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے جن میں آبادی میں اضافے کو روکنا ، غربت کا خاتمہ، ٹیکسوں کی وصولی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کو شامل کرناچاہئے اس کیساتھ ساتھ صوبوں کو ضلعی سطح پر مالی وسائل کو تقسیم کرنا ہوگا۔ ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق مرکز کو بھی اپنے اخراجات کم کرنا ہونگے۔ اس وقت17ایریاز ہیں جو صوبوں کو منتقل ہوچکے ہیں ان اخراجات میں کمی لانی ہوگی ۔ہمارے ہمسایہ ملک میں اگر ٹیکنوکریٹ مالیاتی وسائل کی تقسیم کے فارمولے کو حتمی شکل دینے کا اختیار رکھتے ہیں تو پاکستان میں یہ کیوں ممکن نہیں؟۔

تازہ ترین