• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اس ناقابل انکار حقیقت کے باوجود کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں سے سب سے زیادہ مؤثر کارکردگی پاکستان کی ہے اور سب سے زیادہ قربانیاں پاکستانی قوم نے دی ہیں، امریکی حکومت کی جانب سے عدم اطمینان کا بے جواز اظہار اور ڈو مور کا غیرمنصفانہ کا مطالبہ مسلسل جاری ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کا قطعی جائز حق مانگنے والے کشمیریوں پر بھارت کے بہیمانہ مظالم اور پاکستان کو عدم مستحکم کرنے کے لیے پاکستان کے اندر دہشت گردی کے فروغ کی بھارتی کوششوں پر امریکہ نے نہ صرف چپ سادھ رکھی ہے بلکہ اپنے اقدامات سے اس کی حوصلہ افزائی کی روش اپنا رکھی ہے۔ اوباما انتظامیہ کے اس رویے کا تازہ ترین مظاہرہ گزشتہ روز واشنگٹن میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان مارک ٹونر کی میڈیا بریفنگ میں ہوا۔ اس موقع پر انہوں نے اگرچہ دہشت گردی کے خلاف پاکستان کے اقدامات کا اعتراف تو کیا تاہم تشویش کا اظہار بھی ضروری سمجھا کہ پاکستان تمام دہشت گرد تنظیموں کے خلاف کارروائی نہیں کررہا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان صرف مخصوص گروپوں کو نشانہ بنارہا ہے ۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کسی تفریق کے بغیر تمام دہشت گرد گروپوں کے ٹھکانے ختم کرنے کے لیے مسلسل کام کررہا ہے حالانکہ افغانستان سے پاکستان میں کارروائیاں کرنے والے گروپوں کے ٹھکانے ختم کرنے کیلئے ایسی کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی ہے۔ پاکستان کو غیرمستحکم کرنے کیلئے بھارتی کوششیں تو پوری طرح واضح ہوچکی ہیں، اس کے باوجود امریکہ بھارت اور افغانستان کو ان کی کسی ذمہ داری کا احساس نہیں دلاتا جو اس کے غیرمنصفانہ طرز عمل کا کھلا مظاہرہ ہے۔ پاک بھارت تعلقات کے حوالے سے مارک ٹونر کا کہنا تھا کہ دہشت گردی پاکستان اور بھارت کیلئے حقیقی خطرہ ہے جس سے نمٹنے کیلئے دونوں ملکوں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔ دونوں ملکوں کے تصفیہ طلب معاملات کو طے کرنے کیلئے انہوں باہمی مذاکرات کو ضروری قرار دیا۔جبکہ جمعرات کے روز اسلام آباد سے سارک ملکوں کی وزرائے خارجہ کانفرنس ادھوری چھوڑ کر نئی دہلی روانہ ہوجانے والے بھارتی وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ نے جمعہ کو لوک سبھا میں خطاب کرتے ہوئے کہا کہ میں نے اسلام آباد میں دہشت گردی کے خلاف مضبوط موقف اپنایا اور تمام رکن ملکوں سے درخواست کی کہ وہ دہشت گردوں کو مجاہدین آزادی قرار نہ دیں۔انہوں نے تاریخی حقائق کے بالکل برعکس یہ دعویٰ بھی کیا کہ تمام بھارتی وزرائے اعظم نے پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن پاکستان ایسا پڑوسی ہے جو کسی طرح مانتا ہی نہیں۔ راج ناتھ سنگھ کا یہ بیان فی الواقع حقائق کا منہ چڑانے کے مترادف ہے۔موجودہ بھارتی حکومت سمیت بھارت کی بیشتر حکومتیں مذاکرات سے فرار کی پالیسی پر کاربند رہی ہیں اور بات چیت کا سلسلہ شروع بھی ہوجائے تو مسائل کے منصفانہ حل کی تلاش سے گریز کی بھارتی کوششیں اسے نتیجہ خیز نہیں بننے دیتیں۔خود سارک ملکوں کی حالیہ کانفرنس میں پاکستانی وزیر داخلہ نے بھارت کو ایک بار پھر کھل کر مذاکرات کی پیش کش اور مختلف معاملات میں موقف پر لچک کی ضرورت کا اظہار کیا لیکن بھارتی وزیر داخلہ اس پیش کش کا کوئی مثبت اور معقول جواب دینے کے بجائے کانفرنس کی کارروائی مکمل ہونے کا انتظار کیے بغیر اچانک اپنے ملک واپس روانہ ہوگئے۔لوک سبھا میں انہوں نے دہشت گردوں کو مجاہدین آزادی قرار نہ دینے کی بات کرکے واضح طورکشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی جانب اشارہ کیا ہے جبکہ بین الاقوامی قانون اور اقوام متحدہ کے منشور کی رو سے خودارادیت کیلئے جدوجہد اسی طرح ان کا حق ہے جس طرح مشرقی تیمور اور جنوبی سوڈان کے عوام کا حق تھا جو انہیں اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دلوایا گیا اور امریکہ نے اس میں کلیدی کردار ادا کیا۔ امریکہ اور بھارت دونوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف بے بنیاد الزام تراشیوں کے بجائے حقائق کے مطابق منصفانہ طرز عمل کا اپنایا جانا ضروری ہے، اس کے بغیر دنیا میں امن کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔
تازہ ترین