نواز شریف کی سیاست کسی ایک دور کی کہانی نہیں، یہ دراصل پاکستان کی سیاسی تاریخ کا وہ باب ہے جس میں قربانی، اختیار، صبر، مفاہمت اور ریاستی حکمت ایک ساتھ جلوہ گر ہوتے ہیں۔ بعض لوگ سیاست کرتے ہیں، مگر کچھ لوگ خود سیاست کی تعریف بدل دیتے ہیں۔ نواز شریف انہی میں سے ہیں۔ ان کے سفر کو محض اقتدار کی تلاش نہیں کہا جا سکتا، یہ ایک قوم کی سمت درست کرنے کی مسلسل جدوجہد ہے، جو کبھی تخت پر، کبھی جلاوطنی میں، کبھی جیل کی تنہائی میں، اور کبھی عوام کے بیچ انجام پاتی رہی۔
یہ وہ شخص ہے جس نے اس ملک کو ایٹمی قوت بنایا، جس نے عالمی دباؤ کو ٹھکرا کر مئی 1998ء میں وہ فیصلہ کیا جو آنیوالی صدیوں تک پاکستان کی خودمختاری کی علامت بن گیا۔ وہ لمحہ جب دنیا کے طاقتور ترین ممالک کے سربراہان اسلام آباد کو دھمکیاں دے رہے تھے، اُس وقت نواز شریف نے کہا تھا’’اگر آج ہم نے خود کو روکا، تو آنے والی نسلیں ہمیں بزدلی کا طعنہ دیں گی‘‘۔ یہ جملہ محض ایک اعلان نہیں تھا، یہ پاکستان کے مقدر کی لکیر بدلنے کا لمحہ تھا۔
دنیا کے بڑے رہنما ہمیشہ اپنے فیصلوں سے جانے جاتے ہیں۔ لی کوان یو نے سنگاپور کو نظم و ضبط سے عالمی معیشت بنایا، نیلسن منڈیلا نے جیل کی کوٹھڑی میں بیٹھ کر نسل پرستی کو شکست دی، چارلس ڈیگال نے شکست خوردہ فرانس کو دوبارہ زندہ کیا، اور چرچل نے اپنی قوم کو مایوسی کے اندھیروں سے نکالا۔ انہی تاریخی کرداروں کی طرح نواز شریف نے بھی اپنے عہد میں وہ کام کیا جو رہنماؤں کو دائمی بنا دیتا ہے۔ انہوں نے اقتدار کو مقصد نہیں، ذریعہ بنایا خدمت کا ذریعہ، ریاست کے استحکام کا ذریعہ۔ 1999ء میں جب جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کیا تو بہت سے لوگ سمجھتے تھے کہ نواز شریف کا باب بند ہو گیا۔ مگر تاریخ نے کچھ اور لکھا۔ جلاوطنی کے برسوں میں نواز شریف نے وہ برداشت، وہ صبر اور وہ شعور پیدا کیا جو صرف وہی رہنما سیکھتے ہیں جو اقتدار کے بعد اپنی انا کو شکست دے دیتے ہیں۔ لندن کی شاموں میں وہ کبھی ماضی کے فیصلوں پر غور کرتے، کبھی مستقبل کے لائحہ عمل پر۔ سیاست کی بساط ان کیلئے بند نہیں ہوئی تھی، بلکہ ایک نئے کھیل کی تیاری تھی۔2013ء میں جب وہ تیسری بار وزیراعظم بنے، تو ان کے مخالفین بھی مان گئے کہ پاکستان کی سیاست میں نواز شریف کو مٹانا ممکن نہیں۔ ایک ایسا شخص جسے بار بار گرایا گیا، مگر ہر بار اس نے زیادہ طاقت کے ساتھ واپسی کی۔مگر قسمت نے ان کیلئے آسان راستہ نہیں چنا۔ 2018ء میں جب عمران خان کی حکومت آئی تو انتقام کے اس عہد نے پورے شریف خاندان کو جکڑ لیا۔ نواز شریف جیل میں، بیٹی مریم نواز قیدِ تنہائی میں، بھائی شہباز شریف روزانہ نیب عدالتوں کے چکر لگاتے، اور وفادار ساتھی یا تو غائب یا خاموش۔ بیوی کینسر کے بستر پر تھی، اور پھر وہ خبر آئی جس نے ہر سنجیدہ دل کو لرزا دیا بیگم کلثوم نواز دنیا سے چلی گئیں، اور نواز شریف جیل کی کوٹھڑی میں، بیوی کے جنازے میں شرکت کی اجازت تک سے محروم۔ دنیا کی سیاست میں بہت سے رہنما آزمائشوں سے گزرے، مگر جس صبر سے نواز شریف نے یہ زخم سہے، وہ انہیں تاریخ کے ان کرداروں میں شامل کرتا ہے جنہوں نے طاقت کے بغیر بھی طاقتور بننے کا ہنر سیکھا۔
یہ وہی دور تھا جب پاکستان کے سیاسی افق پرHybrid نظام کی اصطلاح عام ہوئی۔ کہا جانے لگا کہ اب دس سال تک ایک ہی بندوبست چلے گا، اور پرانی سیاست دفن ہو جائے گی۔ پارٹی کے اندر شکستہ دل لوگ سرگوشیوں میں کہنے لگے کہ مسلم لیگ (ن) اب قصہ پارینہ ہے۔ مگر وہ شخص جو لندن کے فلیٹس میں قیدِ تنہائی کا عادی ہو چکا تھا، خاموش نہیں رہا۔ وہ اپنی بیٹی کو سیاست کی اگلی صف میں لایا۔ کہا’اگر سیاست قربانی مانگتی ہے تو یہ قربانی بھی دو، کیونکہ عوام تمہیں دیکھ رہے ہیں‘۔پھر وہ دن آیا جب تاریخ نے پلٹا کھایا۔ وہی نواز شریف جسے 2018ء میں غدار کہا گیا، 2024ء میں پاکستان کے سیاسی نقشے کے مرکز میں واپس آیا۔ بھائی وزیراعظم بنا، بیٹی صوبے کی وزیر اعلیٰ بنی، اتحادی آصف علی زرداری صدر کے منصب پر فائز ہوئے، اور پارٹی ایک بار پھر اقتدار کے مرکز میں۔ مگر نواز شریف نے اس بار خود اقتدار کی کرسی نہیں لی۔ وہ جان چکے تھے کہ سیاست صرف حکومت کا نام نہیں اصل طاقت یہ جاننے میں ہے کہ کب خود کو پیچھے رکھنا ہے تاکہ تاریخ تمہیں آگے لکھے۔وہ آج جاتی امرا کے گھر میں رہتے ہیں۔ وہی سادہ طرزِ زندگی، وہی نظم، وہی دھیما مزاج۔ وہ اپنے گھر میں بجلی کا غیر ضروری استعمال برداشت نہیں کرتے۔ کہتے ہیں قومیں بچت اور نظم سے بنتی ہیںاور یہ آغاز گھر سے ہوتا ہے۔وہ ہر کام میں توازن چاہتے ہیں۔ انکی گفتگو میں اب غصے کی جگہ سکون نے لے لی ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ قوموں کی تعمیر محاذ آرائی سے نہیں، مفاہمت سے ہوتی ہے۔ اس لیے آج وہ مفاہمت کی پالیسی چاہتے ہیں مگر کمزوری کے طور پر نہیں، بلکہ قوت کے طور پر۔
کچھ ناقدین کہتے ہیں کہ نواز شریف کو وزیراعظم نہیں بنایا گیا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اب وہ وزیراعظم سے کہیں اوپر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ وہ کنگ میکر بن چکے ہیں۔ ایک ایسا شخص جو حکومت نہیں چلا رہا مگر حکومت اسی کی سوچ سے چل رہی ہے۔ وہ فیصلہ ساز نہیں، مگر فیصلے انہی کے وژن سے پھوٹتے ہیں۔ اور یہ مقام اقتدار سے بڑا ہوتا ہے یہ تاریخ کا مقام ہوتا ہے۔ممکن ہے اگلے انتخابات سے قبل وہ خود آگے بڑھ کر مفاہمت کی کوئی نئی راہ دکھائیں۔ مگر وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ سیاست میں وقت سب سے بڑا فیصلہ ساز ہوتا ہے۔ ان کے انداز میں اب وہ خاموش اعتماد ہے جو بڑے رہنماؤں کی پہچان ہوتا ہے۔ اب اگر کوئی پوچھے کہ نواز شریف کو آگے کیا کرنا چاہیے تو جواب سادہ ہےوہی جو بڑے رہنما کرتے ہیں اپنی نسل کو تیار کرنا، اپنی جماعت کو مستحکم کرنا، اور اپنی قوم کو وہ وژن دینا جو آنیوالے پچاس سال کیلئے رہنمائی کرے۔