• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اچانک ملنے والی چھوٹی سی خوشی انسان کو ایک دم کتنا تر و تازہ کر دیتی ہے مثلاً سردیوں کے کپڑے پہنیں اور کسی اندر والی جیب سے پانچ سو کانوٹ برآمد ہو جائے۔ صبح دفتر جانے کیلئے اُٹھیں اور پتاچلے کہ تین گھنٹے سے بجلی بند ہے لیکن فوراً یاد آئے کہ کپڑے تو رات کو ہی استری کرلئے تھے۔ کسی ضروری میٹنگ میں جانا ہو اور سخت نیند بھی آرہی ہو، ایسے میں اچانک میسج آجائے کہ میٹنگ کینسل ہوگئی ہے۔ اچانک سے کسی کو دیا گیا اُدھار واپس مل جائے۔ پورے علاقے کی لائٹ بند ہو جائے لیکن آپکی آرہی ہو۔ لیکن اگر معاملہ الٹ ہو تو ایسی ہی چھوٹی چھوٹی باتیں بعض اوقات موڈ تباہ کردیتی ہیں۔ مثلاً بینک کی طرف سے میسج آئے کہ آپ کے اکاؤنٹ میں سے ماہانہ فیس کاٹ لی گئی ہے، رات کو موبائل فون چارجنگ پر لگا کر سوئیں اور صبح پتا چلے کہ تار تھوڑی سی ہل گئی تھی۔ سخت سردی میں نہانے لگیں اور یہ خوفناک انکشاف ہو کہ گیزر نہیں چلایا۔ ماسی صفائی کرکے جائے اور آندھی آجائے۔ آخری بادام کڑوا نکل آئے۔ یہ خوشیاں بڑی ہوتی ہیں نہ مسائل لیکن چند گھنٹے تک اپنے اثرات ضرور رکھتی ہیں۔یہی چند گھنٹے بعض اوقات ہماری زندگی پر حاوی ہوجاتے ہیں۔ ہمارے اکثر اہم ترین فیصلے انہی خوشی یا دُکھ بھرے لمحات میں ہوتے ہیں اوراکثر غلط ہوتے ہیں۔

٭٭٭٭

تمام تر اختلافات کے باوجود یہ سچ ہے کہ ستائیسویں آئینی ترمیم قانونی ہے۔رہا استثنیٰ کامعاملہ تویہ حق حاضر سروس صدر کو تو ہمیشہ سے حاصل رہا ہے۔ یہ ترمیم حکومت نے نہیں پارلیمنٹ نے منظور کی ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم جس چیز کو آزادی دلانے نکلتے ہیں وہی ہماری آزادی سلب کرلیتی ہے۔ افتخار چوہدری کے نام پر عدلیہ کی آزادی کی تحریک جس جوش وخروش سے کامیاب ہوئی اُسی اہتمام سے عدلیہ نے اسے دوبارہ بیڑیاں پہنا دیں۔ ہر حکومت ’ستائیسویں ترمیم’ کرنا چاہتی ہے لیکن کبھی ہاتھ نہیں پڑتا کبھی ووٹ نہیں پڑتا ورنہ دس دفعہ وردی میں منتخب کروانے کا عہد کرنیوالے ابھی زندہ ہیں۔ سیاسی جماعتیں ایسی باتوں پر وہی رویہ اختیارکرتی ہیں جو ساس بہو کیلئے مشہور ہے۔ ساس کو بڑی خوشی ہوتی ہے کہ اُسکا داماد اسکی بیٹی کی ہر بات مانتا ہے لیکن اپنے بیٹے سے شکایت ہوتی ہے کہ رن مرید ہوگیاہے۔حکومتیں ہر دور میں زیرعتاب رہی ہیں اور ہر دورمیں اپنے تحفظ کے اقدامات کرتی رہتی ہیں۔آج حکومت کسی اور سیاسی جماعت کی ہوتی اور حامی میسر ہوتے تو ایسی ہی ترمیم بہت پہلے آچکی ہوتی۔غصہ ترمیم پر نہیں مخالف کی جیت پر ہے ورنہ ہم سب جانتے ہیں کہ ماضی میں حکومتیں کیا کیا کچھ کرتی رہی ہیں۔ ستائیسویں ترمیم پراعتراضات ضرور کرنے چاہئیں، بحث بھی کریں لیکن پانی سر سے گزرچکا ہے۔ اچھی یا بُری کم ازکم ایک ہلچل تو اپنے انجام کوپہنچی۔ ’کتاب عمرکا ایک اور باب ختم ہوا....شباب ختم ہوا، اِک عذاب ختم ہوا‘۔

٭٭٭٭

بلغاریہ کی سوسال پہلے کی نجومی خاتون آنجہانی بابا وانگا کی پیش گوئیاں ہر نئے سال سے پہلے سوشل میڈیاکی زینت بن جاتی ہیں اور بھرپور ریٹنگ حاصل کرتی ہیں۔ ہر بندہ ان میں سے اپنا مطلب نکالتاہے بلکہ کئی تو اپنی پیش گوئیوں کو بھی درمیان میں کہیں ایڈجسٹ کر لیتے ہیں۔کوئی بعیدنہیں کہ عنقریب بابا وانگا کی اس قسم کی پیش گوئیاں بھی پڑھنے کو ملیں کہ ”2026میں انٹرنیٹ بند نہیں ہوا کریگا۔ سی ٹائپ چارجرختم ہو جائینگے۔ نان فائلر انگوٹھے کی بجائے کہنی سے نشان لگائے گا۔ بجلی چوروں کو دو دن تک اُسی تار سے باندھ دیاجائے گا۔اسکولوں میں بچوں کی بجائے والدین کو پڑھایا جائے گا کہ اولاد کے سامنے کیسے مودب ہوکر رہناچاہیے۔سوڈے کی بوتلوں سے ٹھاہ ٹھاہ کی آوازبندکرنے کا قانون نافذہوجائے گا۔پیزے کے آٹھ پیس سے کم کروانیوالوں کو جوڈیشنل ریمانڈپربھیج دیا جائے گا۔ہرقسم کے غیر اسلامی شہد پر پابندی ہوگی۔ موٹیویشنل اسپیکر کے نام سے لفظ’موٹی‘ ختم کر دیا جائیگا کہ اس سے باڈی شیمنگ جھلکتی ہے۔رنگ گوراکرنیوالی کریموں کی بجائے رنگ کالا کرنیوالی کریموں کو فروغ حاصل ہوگا۔محبت کی شادی کی بجائے نفرت کی شادی کا رواج عام ہوجائے گا جس سے طلاقوں کی شرح میں واضح کمی ہوگی۔نیزجوبھی سونے سے پہلے تین دفعہ بابا وانگا کا نام پکارے گا اسے خواب میں چاہت فتح علی خاں کا کلوزاپ دیدار ہوگا۔

٭٭٭٭

حال ہی میں ایک نجی ٹی وی چینل نے اپنے ایک نیوز اینکر کو نوکری سے جواب دیاہے جس پر ہاہاکار مچی ہوئی ہے۔کئی وی لاگ دیکھ کر تو رقت طاری ہوگئی کہ بولنے والے کابس نہیں چل رہا تھا کہ چیخ چیخ کر بتائے کہ ظلم کی انتہاہوگئی ہے۔چینلوں سے آئے دن لوگ فارغ ہوتے ہیں۔ یہ ایک پرائیویٹ نوکری ہوتی ہے، جس طرح اینکربغیر نوٹس دیے آرام سے استعفیٰ دیکر دوسرا چینل جوائن کرلیتے ہیں اسی طرح چینل کا بھی حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی ملازم کو خداحافظ کہہ دے۔عام میڈیا ورکر کی چھٹی کرائی جاتی ہے تو اسے تھک ہار کرخود ہی کوئی چھوٹی موٹی احتجاجی پوسٹ لگانا پڑتی ہے لیکن ہولناک تنخواہ لینے والے اینکر فارغ ہوجائیں تو اُنکے بارے میں ایسا ایسا سیاپا کیا جاتا ہے گویا وہ بیچارے اب کیا کرینگےاُن کی توزندگی ہی ختم ہوگئی ہے۔خوداینکر بھی اپنی عظمت کی داستانیں اور چینل کی بدتمیزیاں ایسے ڈرامائی اندازمیں سناتے ہیں کہ بندہ سوچ میں پڑ جاتاہے کہ آخر چینل نے ایسا ہیرا انسان کیوں کھو دیا؟آپ سنتے ہونگے کہ چینل کو تو بس ریٹنگ کی پڑی رہتی ہے، اِس لیے پڑی رہتی ہے کیونکہ اینکر کو پچاس لاکھ دینے ہوں اور کمرشل دس لاکھ کا آ رہا ہو تو چینل کہاں سے پورا کرے۔

٭٭٭٭

تازہ ترین