گزشتہ انتخابات سے پہلے میں اُن لوگوں میں سے تھا جو کہتے رہے کہ تحریک انصاف کو مقبولیت کے باوجود جیتنے نہیں دیا جائے گا کیوں کہ عمران خان نے لڑائی اسٹیبلشمنٹ ہی نہیں بلکہ فوج کے ساتھ لے لی ہے۔ میں اس لڑائی کے ہمیشہ خلاف رہا کیوں کہ ایک طرف فوج اور دوسری طرف پاکستان کی مقبول جماعت اور اُس کا رہنما۔ ایسی لڑائی پاکستان کے مفاد میں نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے اس لڑائی کو ختم کرنے کیلئے بار بار میں کہتا رہا لیکن کسی نے نہ سنی۔ الیکشن 2024 بلاشبہ بہت دھاندلی زدہ تھے اور ان کا مقصد تحریک انصاف کو ہرانا تھا۔ ایسا ہی ہوا کیوں کہ مقبولیت کی قبولیت نہ ہونے کی وجہ سے تحریک انصاف کو اقتدار نہ ملا اور فارم 47 نے مقبولیت کی جگہ قبولیت کے فارمولے کو حقیقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا اور یوں تحریک انصاف صرف خیبر پختونخوامیں ہی حکومت بنا سکی۔ افسوس کہ عمران خان اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد’’ٹکر والے لوگ‘‘کے ڈائیلاگ سےبہت زیادہ متاثر رہے اور’’ٹکر‘‘کے جوش میں اتنا آگے نکل گئے کہ فوج ،جسے عمران خان پاکستان کی سالمیت کا ضامن قرار دیتے رہے، کے خلاف 9 مئی بھی ہو گیا، اپنی ہی فوج کے خلاف اتنی نفرت کےبیج بو دیے گئے کہ شہیدوں تک کا مذاق اُڑایا گیا۔ مقبولیت کو تو سب کو جوڑنےکیلئے استعمال ہونا چاہیے تھا اور بلاشبہ عمران خان کی حکومت میں مایوس کن کارکردگی کے باوجود اُن کا نکالا جانا اُن کی مقبولیت کا باعث بنا۔ لیکن عمران خان نے نفرت اور تقسیم کی سیاست کی اور اس سیاست میں جھوٹ، بہتان تراشی، گالم گلوچ سب جائز ہو گیا اور ایسا کرنے والے تحریک انصاف کے ووٹرز ،سپورٹرز اس کو حق کی لڑائی گرداننے لگے۔ اپنے نکتہ نظر کے مخالف جو بھی ہو اُس کو گالی دینا، اُس پر الزام لگانا، بہتان تراشی کرنا ان کی اس’’حق‘‘کی لڑائی کے ہتھیار بن گئے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئےپاکستان تک کے مفاد کے خلاف بھی اگر جانا پڑا تو اس میںبھی نہ کوئی جھجک محسوس ہوئی نہ شرمندگی۔ یہ بھی سچ ہے کہ تحریک انصاف کے بہت سے لوگوں سے زیادتی بھی ہوئی، عمران خان پر بھی انگنت مقدمات قائم کر دیے گئے۔ لیکن جس نفرت اور تقسیم کی سیاست کو عمران خان نے چنا اُس کی وجہ سے آج مقبولیت کے باوجود تحریک انصاف موجودہ سیاسی نظام میں Irrelevantہو چکی ہے۔ میں ہمیشہ کہتا رہا کہ لڑائی کی بجائے عمران خان کو اپنی اور اپنی پارٹی کی نارمل سیاست کی طرف واپسی کیلئے رستہ نکالنا چاہیے۔ جو میری رائے ہے یہی رائے تحریک انصاف کے کئی رہنماؤں کی بھی ہے لیکن خان صاحب’’ٹکر لینے والوں‘‘کے بہکاوے سے باہر نہیں نکل رہے اور یوں ان کیلئے اور ان کی پارٹی کیلئے مشکلات بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ گلوں اور سوریوں جیسے بھگوڑوں اور غلاظت بکنے والے’’ہمدرد یوٹیوبرز‘‘کی حکمت عملی تو ہے ہی ایسی ہے جس کا مقصد اپنے لیے ڈالر کمانا، سوشل میڈیا پر لائکس لینا ہے لیکن عمران خان کو مستقل جیل میں رکھنا ہے۔ جس سوشل میڈیا کو عمران خان اپنا ہمدرد سمجھتے ہیں وہ تو گندگی سے بھرا پڑا ہے جسے ما سوائے نفرت کے کسی دوسری شے کا علم نہیں۔ اس نفرت، غلاظت اور گندگی جسے وہ’’حق‘‘ کا نام دیتے ہیں ،اُس کا نشانہ بننے سے دوسرےتو کیا تحریک انصاف کے اپنے رہنما بھی محفوظ نہیں۔ عمران خان کو سوچنا چاہیے کہ ٹکر اور نفرت کی سیاست نے اُنہیں کیا دیا؟ اُن کی سیاسی جماعت کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟ اور یہ بھی کہ جو لوگ اُن کے ووٹر ،سپورٹر ہیں اُن کو اُنہوں نے سیاسی شعور دیا یا نفرت کی ایک ایسی آگ میں جھونک دیا کہ وہ بدزبانی، بدتمیزی، بہتان تراشی کی وجہ سے پہچانے جانے لگے۔ خان صاحب کیا آپ یہی چاہتے تھے؟ ذرا سوچیے!!