• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سینیٹ سے ستائیسویں آئینی ترمیم منظور ہوئی، تو بات بہت دور نکل گئی۔ قانون میں زبردست مہارت رکھنے والے جناب مخدوم علی خان نے اِن ترامیم کو سپریم کورٹ کا ’’تعزیت نامہ‘‘ قرار دِیا ہے جس سے سنجیدہ حلقوں کے سر شرم سے جھک گئے ہیں۔ ممکن ہے ہماری مقننہ اپنے مسودے پر نظرثانی کی ضرورت محسوس کرے۔ستائیسویں آئینی ترمیم کی بحث کے دنوں میں ہمارے قومی سیاسی لیڈر، ہردلعزیز سینیٹر، ایک بلندپایہ کالم نگار اَور مثبت سوچ کے حامل دانش ور جناب عرفان صدیقی اِس دارِفانی سے کوچ کر گئے۔ وہ اَپنے پیچھے جدوجہد کی ایک عظیم تاریخ چھوڑ گئے ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ایک معلم تھے جو رَاولپنڈی کے سرسیّد کالج میں سالہاسال ایک ممتاز اُستاد کے طور پر جانے جاتے رہے۔ اُس کالج میں فوجی خاندانوں کے طلبہ بھی تعلیم حاصل کرتے تھے۔ کئی بار اَیسا ہوا کہ جناب عرفان صدیقی سے پڑھے ہوئے طلبہ آرمی چیف بنے اور دُوسری اہم فوجی ذمےداریوں پر فائز ہوئے۔ بعدازاں صدیقی صاحب کالج کی ملازمت چھوڑ کر صحافت میں آ گئے اور اُن کے کالموں نے علمی دنیا میں دھوم مچا دی۔ اُنہوں نے جنرل ایوب خاں کا مارشل لا بھی دیکھا اور وُہ ہولناک منظر بھی جس میں قائدِاعظم کی بہن محترمہ فاطمہ جناح کو پاکستان کا غدار قرار دَے کر صدارتی انتخاب میں شکست سے دوچار کر دیا گیاتھا۔ جناب عرفان صدیقی نے اُس عہد کا بڑی پامردی سے مقابلہ کیا اور اَپنے کالموں کے ذریعے آمریت کا ایک ایک گوشہ بےنقاب کیا۔ جنرل ایوب خاں کی حکومت کی سب سے بڑی کوشش یہ ہوتی کہ اخبارات میں حقائق شائع نہ ہونے پائیں، چنانچہ زیادہ تر صحافیوں پر عتاب کی بارش ہوتی رہی۔ صدیقی صاحب کو قدرت نے یہ سلیقہ عطا کیا تھا کہ وہ سخت سے سخت بات میٹھے لہجے میں لکھتے اور بازپرس سے بچے رہتے۔ پھر اُنہوں نے ایک سیاسی جماعت مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی اور اَپنی صحت مند فکر کے ذریعے جلد ہی سیاست میں ایک اعلیٰ مقام بنا لیا۔ وہ اَپنی قیادت کے بہت قریب تھے، مگر اپنے دامن کو ہر نوع کی خرافات سے بچائے رکھا۔ اپنی ذہانت کی بدولت وہ ایوانِ بالا تک پہنچ گئے۔ اللّٰہ تعالیٰ اُنہیں جوارِ رحمت میں جگہ عطا فرمائے آمین!

بدقسمتی سے ملک میں سیاسی توازن قائم نہیں رہا اور مسٹر عمران خان جو سیاسی معاملات میں بالکل کورے تھے، وہ جذباتی تقریروں کے بل بوتے پر نوجوانوں کے اندر مقبول ہوتے گئے اور ناپسندیدہ طریقوں سے اقتدار میں آ گئے۔ اُنہوں نے اختیارات سنبھالتے ہی اپنے سیاسی حریفوں سے بدترین قسم کا انتقام لینا شروع کیا۔ نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز کو جیل میں ڈال دیا اور جبر کا ہر حربہ آزمایا۔ سب سے بڑا ظلم اُس وقت ہوا جب نواز شریف کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن میں بسترِمرگ پر تھیں اور نواز شریف اور مریم نواز جیل میں بند تھے۔ عمران خان کے جیالوں نے اُس اسپتال پر چڑھائی کر دی جس میں محترمہ کلثوم نواز زیرِعلاج تھیں اور یہ کہنا شروع کر دیا کہ یہ بیماری ایک ڈھکوسلا ہے اور ہم اِسے بےنقاب کر کے رہیں گے۔ اِس کے بعد میاں نواز شریف نے حکومت سے درخواست کی کہ میری کلثوم صاحبہ سے بات کرائی جائے، مگر سنگ دلوں نے انکار کر دیا جو اِنسانیت کے اعتبار سے انتہائی گھٹیا اقدام تھا۔

جناب نواز شریف اور مریم نواز کے ساتھ ساتھ اُن کے ساتھیوں کو بھی ظلم کا نشانہ بنایا گیا۔ اُن میں سینیٹر عرفان صدیقی نمایاں تھے۔ اُنہیں بلاوجہ ہتھکڑیاں پہنائی گئیں اور سخت اذیت میں دہشت گردی کی عدالت میں لایا گیا۔ جس شخص نے اپنی پوری زندگی اچھے کاموں میں گزاری تھی، اُسے قدم قدم پر رُسوا کرنے کی کوشش کی گئی۔ صدیقی صاحب یہ سارا جبر صبر و شکر کے ساتھ برداشت کر گئے اور متانت سے ہر وارسے بچ جاتے رہے۔ چند روز قبل وہ اَپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ وہ ایک ایسی عدالت ہے جہاں کوئی احتساب سے نہیں بچ سکتا، سوائے اُس کے جس کی ارحم الراحمین اجازت عطا فرمائے۔

ستائیسویں آئینی ترمیم بھی دراصل احتساب کا ایک متوازن نظام لانے کیلئے کی جا رہی ہے۔ ہماری نظر میں اِس وقت دو اَہم ترامیم ہونے کی اشد ضرورت تھی۔ ایک آئینی عدالت کا قیام اور دُوسری مقامی حکومتوں کے جمہوری اور مالیاتی بندوبست کا اہتمام۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کے ذریعے سپریم کورٹ میں آئینی بینچ قائم کیا گیا تھا جس سے مسائل میں مزید اضافہ ہوا اَور سپریم کورٹ کے جج صاحبان ذہنی طور پر تقسیم ہو گئے، اِس لیے آئینی حکومت کا قیام ناگزیر معلوم ہوتا ہے۔ اِسی طرح عوامی سطح پر یہ محسوس کیا جا رہا ہے کہ مقامی حکومتوں کو مالی وسائل کی فراہمی اور پانچ سال بعد انتخابات کے انعقاد کا سرے سے کوئی بندوبست نہیں، چنانچہ آئینی ترمیم ضروری ہے، مگر حکمران سیاست دانوں نے آئین میں تغیروتبدل کا ایک در وَا کر دیا ہے جس سے طرح طرح کے وسوسے ذہنوں میں رینگ رہے ہیں۔

مختلف اسباب سے اُمورِ مملکت چلانے میں جو دُشواریاں بڑھتی جا رہی ہیں، اُن کا نہایت سنجیدگی سے جائزہ لے کر آئینی حل تلاش کیا جائے۔ اصل ضرورت اِس بات کی ہے کہ مقامی حکومتوں کے انتخابات کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی طرح ساٹھ دنوں کے اندر لازمی قرار دِیا جائے۔ اللّٰہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ ہمارے ہاں آئینی ادارے ٹھیک طور پر کام کر رہے ہیں اور بالغ نظر قانون دان اور سیاست دان بھی موجود ہیں۔ تمام تر خامیوں کے باوجود ایک دستوری اور عدالتی نظام بھی کام کرتا آیا ہے۔ اِسے مضبوط، عوام دوست اور اِنصاف پسند بنائے جانے کی ضرورت ہے۔ جو ترمیم کی جا رہی ہے، اِس میں ہائی کورٹس کے جج صاحبان کی جبری تبدیلی سب سے زیادہ پریشان کن ہے، کیونکہ آئین کے تحت جج صاحبان سے رضامندی لینا ضروری تھا۔ اب اُن کی اجازت کے بغیر ہی دوسری ہائی کورٹس میں اُن کے تبادلے کا راستہ کھول دیا گیا ہے اور یہ دھمکی آمیز شِق بھی شامل کر دی گئی ہے کہ جو جج صاحبان تبادلے سے انکار کریں گے، وہ رِیٹائر تصوّر ہوں گے۔ یہ اقدام عدلیہ کی آزادی کو سخت ضعف پہنچا سکتا ہے۔

تازہ ترین