سارا قصور میرا ہے، کبھی ملک سے باہر تو کبھی شہر سے باہر ہوتا ہوں، دنیا کے جھمیلے ہی ایسے ہیں کہ کسی ایک جگہ ٹک کر نہیں بیٹھنے دیتے۔ اس دوران پیر و مرشد بودی شاہ کا کئی مرتبہ فون آیا اور میں نے انہیں ہر مرتبہ کہا کہ آج میں فلاں ملک میں ہوں اور آج دنیا کے فلاں شہر میں ہوں۔ بودی شاہ مجھے ہر مرتبہ دو چار سنا کر غصے سے فون بند کر دیتے۔ میں اسلام آباد واپس آ گیا مگر میں نے جان بوجھ کر شاہ جی کو نہ بتایا، اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ شاہ جی کے جلالی روپ کو کون برداشت کرے مگر گزشتہ روز ساری ترکیبیں دھری کی دھری رہ گئیں، میں لان میں اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا کہ یوں محسوس ہوا کہ گلی میں کوئی زلزلہ آ گیا ہو.... خیر ملازمین نے دروازہ کھولا اور شاہ جی سیدھے وہاں آ گئے جہاں میں دوستوں کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بودی شاہ پرانی وضع کے آدمی ہیں، وہی سفید تہبند کرتا، سر پر شاندار پگڑی، صورت میں وہی رعب داب اور لہجے میں پرانی گرج برقرار۔ بودی شاہ کے لئے بڑی کرسی کا اہتمام کیا گیا، اس سے پہلے بودی شاہ حقے کو تازہ کرنے کا آرڈر کرتے، میں نے احتیاطی اور حفاظتی طور پر( نئی ترمیم کی طرح) ملازم سے کہا حقے کی چلم کو تازہ کر کے لے آؤ، ایک ملازم کو خاص طور پر سمجھایا کہ مردان سے لائے گئے شاندار تمباکو سے چلم تیار کرے اور جلال پور جٹاں والا گڑ استعمال کرے۔
میں نے یہ سب کچھ اس لئے کیا کہ بودی شاہ خوش ہو جائیں اور مجھ سے راضی رہیں تاکہ اگر کہیں کونے کھدرے میں غصہ ہے بھی تو شاہ جی غصے کا مظاہرہ نہ کر سکیں۔ بودی شاہ کو خوش کرنے کیلئے مزید آرڈر دیا کہ گاجرکا حلوہ، سمبڑیال کی برفی اور گڑ کے ساتھ الائچی والی چائے لے آؤ۔ خیر یہ آرڈر کرنے کے بعد ہم سب شاہ جی کی طرف متوجہ ہوئے اور ان سے حالات کے بارے میں پوچھنا شروع کر دیا، انہوں نے حسب سابق گرجدار آواز میں ہمارے ساتھ غصے سے بات کا آغاز کیا، کہنے لگے’’ تم بیوقوف لوگ ہو، تم لوگوں کو کچھ پتہ نہیں، دنیا کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے مگر تم لوگ آئینی اصلاحات کے چکر میں پڑے ہوئے ہو، اصلاحات کا ہی کیا کرنا، تم لوگوں نے تو آئین ہی کا حلیہ بگاڑ کے رکھ دیا ہے، جس طرح تمہارے حکمراںحفاظتی تدابیر اختیار کر رہے ہیں، اس طرح تو عوامی خدمت نہیں ہوتی۔ آئین کوئی سا بھی ہو، نظام کوئی بھی ہو، لوگ خدمت اور تعمیر و ترقی کو یاد رکھتے ہیں لیکن اگر ترقی کی کوکھ سے ظلم برآمد ہو رہا ہو تو لوگ ایسے جبر کو قبول نہیں کرتے، لوگ ہمیشہ ایسے لوگوں کو یاد رکھتے ہیں جو عوامی بھلائی کے کام کریں، لوگ ان سے خوش ہوں، معاشرے میں سماجی سطح پر انصاف نظر آئے اور معاشی طور پر عدل ایسا ہو کہ لوگ معاشرے میں بھوکے نہ سوئیں، خود کشیاں نہ کریں، لوگ فکر معاش میں زندگیاں برباد نہ کریں‘‘۔
بودی شاہ ایک لمحے کے لئے رکے تو میرے ایک ساتھی نے لقمہ دیا ’’ شاہ جی! پاکستان کا اصل مسئلہ کیا ہے؟‘‘ بودی شاہ نے سوال سنتے ہی پہلے تو بندے کو جھاڑا پھر کہنے لگے’’ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ انصاف ہے، یہاں کسی بھی شعبے میں انصاف نہیں، گویا معاشرے کا ہر طبقہ انصاف سے محروم ہے، طاقتور طبقہ بھی اپنے جیسوں کو کچل کر طاقت برقرار رکھتا ہے۔ پاکستان میں ہمیشہ حکمرانوں نے ذاتی مفاد کیلئے سوچا، 78 سال سے پاکستانی حکمرانوں نے ملک و ملت کیلئے سوچا ہی نہیں، پاکستان کے طاقتور طبقے نے ابتدائی برسوں ہی میں قدرت کو ناراض کر لیا تھا، قائد اعظم کے قتل کے بعد قدرت پاکستانیوں سے ناراض ہو گئی، قدرت نے 66 سال کیلئے پاکستانی قوم پر سیاسی شعور کی بیداری کے دروازے بند کر دیئے تھے، 66 سال کی یہ سزا 2014ء میں پوری ہوئی، 2014ء کے بعد سے پاکستان میں سیاسی شعور کی بیداری کا سفر شروع ہوا، اب سیاسی بیداری کی فصل پک چکی ہے۔ کسی وقت بھی پاکستان میں نظام تبدیل ہو جائے گا، پرانے نظام کی سانسیں اکھڑ چکی ہیں، نیا نظام دستک دے رہا ہے‘‘۔
منزل پانے کیلئے کٹھن راستوں سے گزرنا پڑتا ہے، اسی لئے اقبال نے کہا تھا کہ
آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں