میرے لیے کسی مرحوم دوست پر تعزیتی کالم لکھنا بہت مشکل کام ہے۔کئی دنوں سے سن رہا ہوں عرفان صدیقی فوت ہو گئے ہیں۔ان کے بھائی اور ان کے بیٹے سے فون پر تعزیت بھی کر چکا ہوں۔ مجھے توان سےگلہ کرنا تھا کہ عرفان صاحب کئی ہفتوں سے وعدہ کر رہے تھے کہ وہ میرے مہمان کے طور پر لاہور آئیں گے مگر آئے نہیں،ان کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا!۔ مگران دونوں سے نہ چاہتے ہوئے بھی تعزیت کی۔
سب لوگ ،سب اخبار یہی باور کرا رہے تھے کہ وہ فوت ہو چکے ہیں یہ میں سچ کہہ رہا ہوں بار بار خود کو ان کی وفات کا یقین دلانا پڑتا ہے اور ایسا اس وقت ہوتا ہے جب کوئی شخص آپ سے روزانہ گپ شپ بھی کرتا ہو۔اخباروں اور ٹی وی پر بھی آپ اس کی گفتگو سنتے ہوں اور سنجیدہ سے سنجیدہ موضوع پر اظہارِ خیال کے دوران بھی کہیں مردنی کا احساس نہیں ہوتا بلکہ زندگی بولتی محسوس ہوتی ہے۔تو پھر ان افواہوں پر کون یقین کر سکتا ہے کہ وہ فوت ہو گیا ہے یا فوت ہو سکتا ہے۔
عرفان صدیقی سے میری پہلی ملاقات ان کے سیاست میں بھرپور طریقے سے آنے سے پہلے ہوئی تھی۔ان سے کبھی کبھار فون پر یا اسلام آباد میںچھوٹی موٹی ملاقات ہو ہی جاتی تھی مگر ایک دفعہ اسلام آباد گیا تو وہ مجھے ایک اعلیٰ درجے کے ریسٹورنٹ میں لنچ پر لے گئے۔ایک دفعہ ان کے گھر گیا تو لنچ بھی ان کے ساتھ کیا۔تاہم ان دنوں کی ملاقاتیں کافی طویل ہوتی تھیں۔وہ بھی میری طرح نواز شریف کے بطورسیاست دان ہی نہیں،بلکہ ایک مدبر کے طور پر ان کے مداح تھے اور یوں یہ ہم خیالی بھی ہم دونوں کو ایک دوسرے کے قریب سے قریب تر لاتی چلی گئی۔ان سے دن بدن بڑھتی قربت کا ایک سبب ان کی شاعری اور ادب سے لگاؤ تھا۔ان کا شعری مجموعہ شائع ہوا اب مجھے یاد نہیں اس میں میرا فلیپ بھی شامل تھا یا نہیں۔تاہم جب ہماری ملاقات ہوتی اس میں سیاست کے علاوہ لٹریچر سے متعلق بھی بات ہوتی۔ایک وقت وہ آیا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے قریب سے قریب ترین ہوتے چلے گئے۔اور نواز شریف کی مشاورت میں بھی شامل ہوتے تھے شاید ان کی تقریر کے نکات بھی وہ لکھتے تھے۔اور مسلم لیگ بلکہ نواز شریف سے ان کا تعلق دن بدن گہرے سے گہرا ہوتا چلا گیا۔یہاں میں ان سے مختلف تھا مجھے مسلم لیگ سے نہیں نواز شریف سے پیار تھا اور یہ تادم آخر رہے گا۔نواز شریف بھی مجھ سے بہت محبت کرتے ہیں اور اس کا عملی اظہار دیگر امور کے علاوہ وزارت عظمیٰ کے دوران میرے دفتر معاصر اور ،میری الحمرا سے وابستگی کے دوران صرف ملنے کے لیے ان دفاتر میں چلے آناکوئی ایسی بات نہیں جو بھلائی جا سکے اور کوئی ایسی وجہ نہیں کہ انہیں بہت بڑا انسان تسلیم کرنے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کرنا پڑے ۔
اپنے حوالے سے یہ ذکر میرے اور عرفان صدیقی کے مشترکہ محب کا ہونا ہی تھا،سیاست سے ہٹ کر بات کی جائے تو عرفان اپنی شگفتہ گوئی کی وجہ سے محفلوں کی جان بھی ہوتے تھے۔ان کی ایک بہت بڑی خوبی یہ بھی تھی کہ وہ ٹیلنٹ دیکھ کے فیصلہ کرتے تھے کہ یہ شخص اس کام کا اہل ہے کہ نہیں جو اسے سونپا جائے۔چنانچہ انہوں نے برادرم عقیل عباس جعفری کو ایک بڑے عہدے پر فائز کیا حالانکہ وہ مسلم لیگ کے مخالف ہیں اور ان دنوں عمران خان کے حامیوں میں سے ہیں ۔ان کی پیروی میں جب مجھے اختیار ملا تو میں نے بھی یہی وتیرہ اپنانے کی کوشش کی یہاں مجھے اس بات پر ملال کا اظہار بھی کرنا ہے کہ یہ صفت کسی اور سیاسی جماعت میں نہ صرف پائی نہیں جاتی بلکہ اس بڑے سے بڑے ٹیلنٹ کی بھی اسکروٹنی کی جاتی ہے جو ان کے "امام وقت"کو اپنے عقیدے کا لازمی جزو نہ بنائے۔عرفان صدیقی نے لاہور سے ایک ملک گیر شہرت کے دانشور ناصر عباس نیر کو بھی بہت اعلیٰ ادبی عہدے کے لیے نامزد کیا اور انہوں نے اپنی کارکردگی سے کسی کو مایوس نہیں کیا۔اسی طرح میرا یہ سیاست دان دوست مخالف جماعت کے دشنام بھرے بیانات کا جواب بھی پوری شائستگی اور ادبی پیرائے میں ہی دیتا تھا۔میں یہاں بہت معذرت کے ساتھ یہ بات کہنے لگا ہوں کہ کسی دوسری سیاسی جماعت میں مجھے یہ رواداری نظر نہیں آئی۔
عرفان صدیقی صرف سیاست دان،شاندار مقرر اور عمدہ شاعر ہی نہیں اعلیٰ درجے کے کاتب بھی تھے اور کبھی کبھی مجھے اس کے نمونے بھی ارسال کرتے تھے۔پاکستان کے بڑے لوگوں کی اکثریت کی طرح برادرم کا تعلق بھی ایک غریب گھرانے سے تھا مگر اس غریب گھرانے نے حق حلال کی کمائی سے اپنے بچوں کو لکھایا ،پڑھایا انہیں اس شعور کی دولت دی جنہوں نے ان کے اندر غربت کا احساس پیدا نہیں ہونے دیا۔میرا یہ دوست اب اس دنیا میں نہیں ہے آپ سینیٹر بننے سے پہلے اور بعد کے ان کے اثاثے نکلوا کر دیکھ لیں تو آپ کو اندازہ ہو جائے گا کہ حق حلال کی کمائی سے بھی عزت کی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔
آج صرف اتنا ہی کہ کالم میں اتنے لفظوں کی گنجائش رہ گئی ہے۔