دی اکانومسٹ میں صحافی اوون بینیٹ جونز نے لکھا ہے یہ ایک دیرینہ روایت ہے کہ طاقتور مردوں کی ناکامیوں کو ان کی چال باز بیویوں کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہے، جیسا کہ لیڈی میکبتھ کی مثال پیش کی جاتی ہے۔
اس طرزِ فکر کے حامل افراد کے نزدیک بشریٰ بی بی اس کردار میں پوری طرح ڈھلتی نظر آتی ہیں، ایک ایسی شخصیت جو گویا قوم کے ہیرو کو اپنے سحر میں جکڑ کر اسے اپنی منشا کے مطابق موڑ لیتی ہے۔
شیکسپیئر کے ڈرامے میکبتھ میں لیڈی میکبتھ کون تھیں؟ جانتے ہیں: شیکسپئر کا مشہور ڈراما ’میکبتھ‘ جس میں میکبتھ اسکاٹ لینڈ کا ایک بہادر جنرل ہوتا ہے، جنگ سے واپسی پر اسے تین چڑیلیں پیشگوئی کرتی ہیں کہ وہ ایک دن بادشاہ بنے گا۔ ڈرامے کا دوسرا اہم کردار ’لیڈی میکبتھ‘ جس کے دل میں طاقت کی پیاس شعلوں کی طرح بھڑکتی تھی۔ جب اسے معلوم ہوا کہ چڑیلوں نے میکبتھ کی بادشاہی کی پیشگوئی کی ہے تو وہ اس خواب کو حقیقت بنانے کا فیصلہ کر تی ہے اور میکبتھ کو آمادہ کرتی ہے کہ وہ بادشاہ ڈنکن کو قتل کر دے۔
لیڈی میکبتھ شیکسپیئر کے ڈرامے کی سب سے پیچیدہ، طاقتور اور المناک شخصیات میں سے ایک ہے جس کا کردار حرص و آرزو، دباؤ اور اثراندازی کے گرد گھومتا ہے۔
لیڈی میکبتھ کی سب سے بڑی کمزوری طاقت کی خواہش ہوتی ہے اسے معلوم ہے کہ میکبتھ کے اندر نرم گوشہ، خوف اور اخلاقی ہچکچاہٹ موجود ہے۔ اس لیے وہ اسے بے رحمی کی طرف دھکیلتی ہے۔ وہ اسے باور کرواتی ہے کہ جب تم یہ کام کرنے کی ہمت کرو گے، تب ہی سچے معنوں میں مرد کہلاؤ گے، اپنے حوصلے کو مضبوط کر لو، پھر ہم کبھی ناکام نہیں ہوں گے۔
ڈرامے کے ایکٹ ون سین پانچ میں وہ میکبتھ سے کہتی ہے کہ باہر سے معصوم اور نرم دکھائی دو، مگر اندر سے سانپ کی طرح چالاک اور خطرناک رہو۔
لیڈی میکبتھ کو ڈر ہے کہ نسوانی نرمی اس کی راہ میں رکاوٹ نہ بن جائے، اس لیے وہ اپنے اندر سے رحم اور ہمدردی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ وہ بار بار دہراتی ہے کہ مجھے ہر قسم کی کمزوری سے آزاد کرو، اور سر سے پاؤں تک مجھے بے رحم سفاکی سے بھر دو۔
میکبتھ جب بادشاہ کو قتل کر کے خود بادشاہ بن جاتا ہے تو لیڈی میکبتھ ابتدا میں مضبوط نظر آتی ہے، مگر رفتہ رفتہ اس کے اندر جرم کا احساس گہرا ہوتا ہے جس پر وہ خود فریبی اور حقیقت سے فرار کے حربے آزماتی ہے۔ مگر اسے ہر وقت اپنے ہاتھوں پر خون نظر آتا ہے، جو دھلتا نہیں۔
شیکسپیئر کے ڈرامے میں لیڈی میکبتھ کے کردار کی طاقت کی انتہا پسندانہ خواہش۔ بالآخر اسے مکمل تنہا، ٹوٹا ہوا اور پچھتاوے میں ڈوبا ہوا چھوڑتی ہے۔