ملائشیا کے ساحلی جزیرے لنکاوی کا آسمان اس دن عجیب طرح کا نیلا تھا۔ ایسا نیلا جو آنکھوں سے زیادہ دل کو چھو جائے۔ سمندر کے پانی پر چھوٹی چھوٹی لہریں سورج کی روشنی کو یوں چمکا رہی تھیں جیسے کسی نے ہزاروں شیشوں کے ٹکڑے پانی پر بکھیر دیے ہوں۔ کشتی میں بیٹھے ہوئے میرے گرد دنیا بھر کے لوگ موجود تھے، کوئی تصویریں بنا رہا تھا، کوئی حیرت سے سمندر کو تک رہا تھا، اور کوئی بس ہوا میں کھویا بیٹھا تھا۔ لنکاوی کے جزیرے ہمیشہ سیاحوں کو جادوئی دنیا میں لے جاتے ہیں، مگر اس دن جو انوکھا منظر میرا انتظار کر رہا تھا، اس نے میرے ذہن کا دھارا بالکل بدل دیا۔ہم ایک ایسے جزیرے پر پہنچے جہاں بے شمار بندر موجود تھے۔ حیرت یہ تھی کہ وہ جنگل کے بندر کم اور سیاحوں کے اردگرد منڈلاتے ہوئے بچوں کی طرح زیادہ لگ رہے تھے۔ ان کی نظریں ہر آنیوالے کے ہاتھوں پر جمی تھیں۔ جیسے پوچھ رہے ہوں’’کچھ لائے ہو ہمارے لیے؟ بسکٹ، چپس، چنّے… کوئی بھی چیز؟‘‘میں نے بھی جیب میں ہاتھ ڈالا، شاید ان کی طرف کچھ اچھال ہی دیتا، مگر سامنے ایک بڑا بورڈ میرے قدم روک گیا۔ اس پر لکھا تھا:’’براہِ کرم بندروں کو کچھ نہ کھلائیں‘‘۔نیچے وجہ درج تھی کہ جنگل کی اپنی ایک فطرت ہوتی ہے۔ جانور اپنی خوراک خود ڈھونڈتے ہیں۔ اگر سیاح انہیں کھانا ڈالیں تو وہ اس کے عادی ہو جاتے ہیں، محنت ختم ہو جاتی ہے، اور جنگل کا توازن بگڑ جاتا ہے۔میں نے وہ جملہ دو بار پڑھا۔اور تیسری بار پڑھنے سے پہلے ذہن خود بخود لنکاوی کے بندروں سے نکل کر افغانستان کی وادیوں کی طرف بھاگ گیا۔افغانستان نے بھی کبھی خود محنت نہیں کی انہیں کبھی امریکہ نے کھلایا، کبھی عربوں نے، کبھی ایران نے، کبھی بھارت نے۔ کبھی جہاد کے نام پر ڈالروں کی بارش ہوئی، کبھی دہشت گردی کے‘‘ریٹ’’لگے، اور کبھی منشیات کا کاروبار ان کی‘‘قومی آمدنی’’بن گیا۔ایک پورا ملک اپنی خوراک، اپنی روزی، اپنی ترقی خود حاصل کرنے کے بجائے سالوں سے دوسروں کے بسکٹ اور چپس پر پل رہا ہےاور جب ایک قوم دوسروں کے پیسے پر جیے تو وہ ترقی کے لیے جدوجہد کرنے کا حوصلہ کھو دیتی ہے۔افغانستان کی کہانی بھی کچھ ایسی ہی ہے۔لیکن یہ کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی، یہاں ایک تیسرا کردار بھی شامل ہے—بھارت۔چند ماہ قبل بھارت نے وہ شرمندگی اٹھائی جس کی مثال خطے میں کم ملتی ہے۔ دعوے بڑے بڑے، طاقت کا شور بہت زیادہ، لیکن انجام؟ آٹھ جنگی جہاز فضاؤں میں
دھواں بن کر بکھر گئے۔پاکستان نے نہ صرف بھارت کے جنگی عزائم خاک میں ملائے بلکہ دنیا نے بھی کھل کر قبول کیا کہ بھارت کا عسکری بیانیہ زیادہ تر شور تھا، حقیقت نہیں۔بھارت کا خواب ٹوٹ گیا کہ وہ خطے میں فوجی طاقت کے بل پر اپنی مرضی کی حکمرانی قائم کر سکتا ہے۔یہ شکست بھارت کے دل پر اس طرح لگی کہ انتقام کی آگ میں وہ نیند تک کھو بیٹھا۔ بھارتی وزیر اعظم نے خود کہا کہ انہیں رات بھر نیند نہیں آتی کہ پاکستان سے حساب کیسے برابر کیا جائے۔لیکن بھارت کے سامنے ایک مسئلہ تھا—وہ پاکستان سے براہِ راست جنگ نہیں جیت سکتا۔معیشت ٹوٹ پھوٹ کا شکار، اندرونی تقسیم بڑھتی ہوئی، عالمی سطح پر رسوائی کا خوف، اور سرمایہ کاروں کی شدید مخالفت۔بھارت کے بڑے صنعتکار جانتے ہیں کہ پاکستان کے میزائل اور ایئر پاور ان کی اربوں ڈالر کی انڈسٹری کو دھوئیں میں بدل سکتے ہیں۔لہٰذا بھارت نے پرانا، آزمودہ، مگر خطرناک راستہ چنا۔افغان سرزمین کا استعمال۔اسی لیے آج افغانستان کے وہ گروہ، جو کبھی امریکہ کی گود میں بیٹھے تھے، آج بھارت کے ہاتھوں میں کھلونے بنے ہوئے ہیں۔ چند سو ملین ڈالرز کے بدلے پاکستان میں دہشت گردی کی خدمات فراہم کر رہے ہیں۔ ہر حملے کا ریٹ، ہر دھماکے کی قیمت، ہر خون کی بولی لگ چکی ہے۔ایک ملک جو خود منشیات، اسمگلنگ اور غیر قانونی تجارت پر چل رہا ہو، وہاں دہشت گردی کاکاروبارچلانا تو ان کے لیے معمولی بات ہے۔مگر بھارت یہ بھول رہا ہے کہ جو بندوق آج پاکستان کی طرف چل رہی ہے، وہ کل زیادہ قیمت ملنے پر بھارت کی طرف بھی مڑ سکتی ہے۔کرائے کے قاتلوں کی کوئی قوم، کوئی مذہب، کوئی ہمدردی نہیں ہوتی۔صرف غرض رقم ہوتی ہے۔پاکستان اپنی مشکلات کے باوجود ایک مضبوط دیوار کی طرح کھڑا ہے۔ہماری فوج کا ہر جوان، ہر افسر، ہر کمانڈر سرحدوں کا محافظ بن کر کھڑا ہے۔ بھارت ہو یا افغان دہشت گرد، پاکستان کے سپوت ان کے سامنے چٹان کی طرح ڈٹے ہیں۔یہ وہ جذبہ ہے جو قوموں کو زندہ رکھتا ہے۔لیکن جدید جنگیں جذبے سے نہیں، ٹیکنالوجی سے جیتی جاتی ہیں۔عالمی عسکری ماہرین کی رائے بالکل درست ہے کہ پاکستان کو مزید نقصان سے بچنے کیلئے ڈرون ٹیکنالوجی کا زیادہ استعمال کرنا چاہیے۔ پہاڑوں میں چھپے دشمن کا مقابلہ زمین پر لڑتے ہوئے کرنا زیادہ نقصان دہ ہے۔ڈرون دشمن کو اس کے ٹھکانے پر ہی ختم کر دیتے ہیں، وہ بھی بغیر اپنے جوانوں کی جان کو خطرے میںڈالے۔لنکاوی کا وہ بورڈ آج بھی میری آنکھوں کے سامنے ہے’’انہیں کھانا نہ دیں، یہ جنگل کا نظام بگاڑ دیتے ہیں‘‘۔افغانستان کا جنگل بھی بگڑ چکا ہے۔اور بھارت کا کھیل بھی خطرناک ہے۔مگر پاکستان…پاکستان وہ درخت ہے جو ہر طوفان کے بعد اور مضبوط ہو جاتا ہے۔پاکستان زندہ باد۔