بیرون ملک مقیم پاکستانی ورکرز کی جانب سے بینکوں اور منی ایکسچینج کمپنیوں کے ذریعے وطن بھیجی جانے والی ترسیلات زر ملک کیلئے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں اور ملکی معیشت میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ یہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے، قرضوں کی ادائیگی، روپے کی قدر اور زرمبادلہ ذخائر میں استحکام رکھنے میں بھی مدد دیتی ہیں۔ اسٹیٹ بینک کے اعداد و شمار کے مطابق رواں مالی سال 2025-26 کے پہلے 4 مہینوں (جولائی سے اکتوبر) میں 12.96 ارب ڈالر کی ترسیلات زر وطن بھیجی گئیں جو گزشتہ مالی سال 2024-25 کے مقابلے میں 9.3 فیصد زیادہ ہیں۔ ان میں سب سے زیادہ ترسیلات زر اکتوبر میں سعودی عرب سے 820.9 ملین ڈالر موصول ہوئیں جو ماہانہ بنیاد پر 9.3 فیصد اور سالانہ بنیاد پر 7.1 فیصد زیادہ ہیں۔ دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات سے 697.7 ملین ڈالر (15 فیصد اضافہ)، یورپی یونین ممالک سے 457.4 ملین ڈالر (19.7 فیصد اضافہ)، برطانیہ سے 487.7 ملین ڈالر (4.7 فیصد اضافہ) اور امریکہ سے 290 ملین ڈالر (8.8 فیصد کمی) ترسیلات زر پاکستان بھیجی گئیں۔ واضح رہے کہ گزشتہ مالی سال 2024-25 کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 27 فیصد اضافے سے ریکارڈ 38.3 ارب ڈالر کی ترسیلات زر وطن بھیجی تھیں جو پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ تھیں جبکہ مالی سال 2023-24 میں مجموعی ترسیلات زر 30.25 ارب ڈالر بھیجی گئیں۔ ترسیلات زر میں حالیہ اضافہ اوورسیز پاکستانیوں کی جانب سے قانونی ذرائع سے رقوم وطن بھیجنے کے حکومتی اقدامات کا نتیجہ ہے۔ اس کے علاوہ منی لانڈرنگ کے خلاف حکومتی کریک ڈاؤن، بیرون ملک پاکستانیوں کی تعداد میں اضافہ، ترسیلات زر بھیجنے پر بینک چارجز کا خاتمہ اور فی ٹرانزیکشن پر 20 سعودی ریال کی حکومتی مراعت نے ہنڈی حوالہ سے ترسیلات زر بھیجنے کی حوصلہ شکنی کی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ڈیجیٹل سروسز کے تحت ترسیلات زر کی فوری ادائیگی بھی ترسیلات زر میں اضافے کی وجوہات ہیں۔ قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی حالیہ میٹنگ میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے بتایا کہ 20 سعودی ریال یا مساوی کرنسی کمیشن دینے پر حکومت نے گزشتہ مالی سال تقریباً 200 ارب روپے بیرونی بینکوں اور ایکسچینج کمپنیوں کو کمیشن کی مد میں ادا کئے۔ اطلاعات کے مطابق اس اسکیم کا غلط استعمال بھی کیا گیا ہے اور ترسیلات زر کی رقم کو ایک سے زیادہ ٹرانزیکشن میں تقسیم کرکے زیادہ کمیشن وصول کیا گیا جس کے بعد اس اسکیم میں ترمیم کی گئی ہے اور اب ایک دن بھیجی جانے والی ٹرانزیکشن پر ایک بار ہی کمیشن دیا جائے گا۔
خلیجی ممالک میں اس وقت 55 لاکھ سے زائد پاکستانی مقیم ہیں جو سعودی عرب اور دیگر خلیجی ممالک کے ترقیاتی منصوبوں اور انفراسٹرکچر کی تعمیر میں اہم کردار ادا کررہے ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2017 سے 2021 کے دوران 323000 پاکستانی بیرون ملک ملازمتوں کیلئے گئے جبکہ گزشتہ دو سالوں 2022 اور 2023 میں یہ تعداد بڑھ کر دگنی سے زائد 850000 ہوگئی۔ ان میں 50 فیصد سے زائد پاکستانی ورکرز سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات گئے۔ دیگر ممالک میں عمان، قطر، بحرین اور ملائیشیا شامل ہیں ۔ دنیا میں ترسیلات زر رینکنگ کے مطابق سب سے زیادہ ترسیلات زر وصول کرنے والا ملک بھارت ہے جو سالانہ 87 ارب ڈالر، دوسرے نمبر پر چین 53 ارب ڈالر، تیسرے نمبر پر میکسیکو 52 ارب ڈالر، چوتھے نمبر پر فلپائن 38 ارب ڈالر، پانچویں نمبر پر پاکستان 38 ارب ڈالر، چھٹے نمبر پر مصر 31 ارب ڈالر، ساتویں نمبر پر بنگلہ دیش 23 ارب ڈالر اور آٹھویں نمبر پر نائیجریا 18 ارب ڈالر شامل ہیں۔ تعلیم یافتہ، انگریزی زبان جاننے اور تکنیکی ہنرمندی کے باعث فلپائن اور بھارت کے ورکرز کو دنیا بھر میں ترجیح دی جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیرون ملک سب سے زیادہ بھارتی اور فلپائنی ورکرز ہیں جس کا اندازہ ان ممالک کو بھیجی جانے والی ترسیلات زر سے لگایا جاسکتا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان سے بیرون ملک جانے والے بیشتر پاکستانی غیر ہنرمند ہوتے ہیں جنہیں فلپائن اور بھارت کے مقابلے میں کم اجرت دی جاتی ہے۔ اگر ان کو ووکیشنل ٹریننگ دے کر بھیجا جائے تو یہ بھی بھارت اور فلپائن کے ورکرز کی طرح زیادہ اجرتیں حاصل کرسکتے ہیں۔
گزشتہ دنوں اسلامک چیمبرز آف کامرس اور البرکہ بینک کی ترسیلات زر پر کانفرنس میں اسلامک چیمبر کے سیکریٹری جنرل یوسف خلاوی نے بتایا کہ 2017 سے 2022 تک 5 سالوں کے دوران بیرون ملک مقیم پاکستانیوں نے 150 ارب ڈالر کی ترسیلات زر اپنے وطن بھیجیں جو پاکستان کے تمام بیرونی قرضوں سے زیادہ ہیں جبکہ 2022 میں پاکستان دنیا میں ترسیلات زر وصول کرنے والا پانچواں بڑا ملک قرار پایا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2023 میں پاکستان کی ترسیلات زر 30 ارب ڈالر تھی اور 2024-25 میں یہ بڑھ کر 38 ارب ڈالر سے تجاوز کرگئیں جو ہماری ایکسپورٹ سے بھی زیادہ ہیں جبکہ حکومت نے اس سال ترسیلات زر کا ہدف 40 ارب ڈالر مقرر کیا ہے۔ پاکستان کے کرنٹ اکاؤنٹ اور تجارتی خسارے میں اضافے سے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ رہتا ہے رواں مالی سال 2025-26 کے ابتدائی 4 مہینوں میں ہمارا تجارتی خسارہ 13 ارب ڈالر تک جاپہنچا ہے جو گزشتہ مالی سال 2024-25 کے مقابلے میں 38 فیصد زیادہ ہے۔ جولائی سے اکتوبر 2025 کے دوران ہماری امپورٹ 15 فیصد بڑھ کر 23 ارب ڈالر پہنچ گئیں جبکہ ایکسپورٹ 4 فیصد کم ہوکر 10 ارب ڈالر رہیں جس کی وجہ سے 40 ارب ڈالر سالانہ کا تجارتی خسارہ متوقع ہے جو ہماری ترسیلات زر سے پورا ہورہا ہے لہٰذا زرمبادلہ کے ذخائر کو مستحکم رکھنے کیلئے ترسیلات زر ایک اہم کردار ادا کررہی ہیں۔