• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چھالیا، گٹکا، مین پوری: زبان کا چسکا، زندگی کی قیمت پر ...

پان، چھالیا، گٹکا، مین پوری، تمباکو وغیرہ کا استعمال منہ کے کینسر کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ چوں کہ پاکستان، بھارت اور بنگلا دیش میں اِن چیزوں کا استعمال بہت زیادہ ہے، اِسی لیے اِن ممالک میں منہ کے کینسر کی شرح باقی دنیا سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ 

یہ تمام مضر اشیاء دانتوں اور منہ کی دیگر خطرناک بیماریوں کا بھی باعث بنتی ہیں۔ پان، چھالیا، گٹکا، مین پوری، پان مسالے اور میٹھی چیزوں کے استعمال سے دانتوں میں کیڑا لگنے، Dental Caries، دانتوں میں Cavities، مسوڑھوں میں سوزش، دانتوں کے ہلنے، یہاں تک کہ دانتوں کے گرنے کے مسائل بھی پیدا ہوتے ہیں۔ 

نیز، اِن بیماریوں کے باعث مریض کو دانتوں میں درد، منہ سے خون اور بدبُو آنے کی شکایات پیدا ہوتی ہیں۔ کچھ افراد میں چھالیا کے مستقل استعمال سے دانت نوکیلے اور تیز دھار ہو جاتے ہیں، جن کی مستقل رگڑ سے منہ میں اور زبان پر زخم ہو جاتے ہیں، جو رفتہ رفتہ کینسر میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔

چھالیا، مین پوری کا استعمال ایک اور تکلیف دہ مرض کو بھی جنم دے سکتا ہے اور وہ ہے اورل سب میئوکس فائبروسس( Oral Sub Mucous Fibrosis )،جسے مختصراً’’ OSMF‘‘ بھی کہتے ہیں۔اِس مرض میں منہ کے اندر، گالوں کے پٹّھوں کی لچک ختم ہو جاتی ہے اور پٹّھے خشک چمڑے کی طرح انتہائی سخت ہو جاتے ہیں، جس کے نتیجے میں مریض پوری طرح منہ نہیں کھول سکتا۔ 

وقت کے ساتھ نوبت یہاں تک آجاتی ہے کہ کھانے پینے میں مشکل پیش آنے لگتی ہے۔OSMF کے باعث منہ کُھلنا تو دشوار ہوتا ہی ہے، اگر حلق سے کان تک جانے والی Eustachian Tube کے گرد کا حصّہ بھی متاثر ہو، تو سماعت میں بھی دشواری ہوتی ہے۔ 

پھر کبھی غذا کی نالی esophagus کا ابتدائی حصّہ ایک تہائی متاثر ہو جاتا ہے، نتیجتاً مختلف اشیاء کے نگلنے میں دشواری ہونے لگتی ہے۔ اکثر مریض منہ میں جلن کے احساس کی بھی شکایت کرتے ہیں، جب کہ مرچ مسالے کے استعمال سے جلنے کا احساس مزید بڑھ جاتا ہے۔

OSMF ایک ایسی بیماری ہے، جو بنا علاج ختم نہیں ہوتی، بلکہ بتدریج بڑھتی چلی جاتی ہے۔ دس فی صد مریضوں میں OSMF کا مرض کینسر میں تبدیل ہو جاتا ہے اور اِس تبدیلی میں تمباکو کا استعمال خصوصی اہمیت کا حامل ہے۔اِس سلسلے میں معالجین عوام النّاس کو مشورہ دیتے ہیں ہے کہ اگر٭منہ یا ہونٹوں پر ہم وار یا چِھلکے جیسے دھبّے ظاہر ہونے لگیں۔٭بغیر کسی ظاہری وجہ کے منہ میں درد، خشکی یا جلن کا احساس ہونے لگے٭بولنے یا نگلنے میں دشواری ہو یا پھر٭منہ کھولنے میں دشواری یا زبان کی حرکت محدود ہونے لگے، تو فوری طور پر دانتوں کے کسی مستند ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

بدقسمتی سے پان، چھالیا، گٹکا اور پان مسالا وغیرہ ہر جگہ بآسانی سے دست یاب ہے۔ ان کے اشتہارات اور پیکنگ اِتنی دل کش اور پُرکشش ہوتی ہیں کہ ہر شخص، خاص طور پر بچّے اور نوجوان ان کی طرف لپکتے ہیں۔ پھر طرح طرح سے ان کے ذائقے کو مزے دار بنانے کی کوششیں کی جاتی ہیں اور اکثر ان میں نشے کی ملاوٹ بھی ہوتی ہے، جو ان کی طلب میں اضافہ کرتی ہے۔ 

غریب گھرانوں میں ان کا استعمال بہت زیادہ ہے۔ بلا مبالغہ، کچھ گھرانوں میں تو روز مرّہ کے کھانے پینے سے زیادہ خرچہ اِن فضولیات کا ہے۔ بڑی بڑی محفلوں اور تقاریب میں ان کا استعمال اِتنا عام ہے کہ اگر یہ اشیاء موجود نہ ہوں، تو لگتا ہے کہ دعوت میں کچھ کمی رہ گئی ہے۔اب تو اِن کا کاروبار باقاعدہ ایک صنعت کی حیثیت اختیار کرچُکا ہے۔پان، چھالیا، گٹکا اور اِن کے لوازمات ہر دُکان، گلی کوچے کے کھوکھوں پر ہر عُمر کے خریدار کے لیے میسّر ہیں۔ 

یقیناً کسی چھوٹے بچّے کو چھالیا وغیرہ فروخت کرتے ہوئے دُکان دار کو کبھی یہ تصوّر تک نہیں ہوتا ہو گا کہ یہ چھوٹی سی پُڑیا بھیانک صُورتِ حال پیدا کر سکتی ہے۔ ہم تو بطور معالج ایسی اشیاء فروخت کرنے والوں سے درد مندانہ اپیل اور التجا ہی کرسکتے ہیں کہ وہ اچھے انسان کے طور پر اپنی ذمّے داری کا احساس کریں اور کم از کم چھوٹے بچّوں کو تو گٹکا ، چھالیا ہر گز فروخت نہ کریں۔

اِس سلسلے میں سب سے اہم کردار والدین کا ہے۔ اگر وہ یہ فضول اور نقصان دہ اشیاء استعمال کریں گے، تو بچّے بھی اُن کی دیکھا دیکھی اِن کی طرف راغب ہوں گے۔ اِس لیے بہتر تو یہی ہے کہ والدین ایسی مضرِ صحت اشیاء کا استعمال تَرک کر دیں اور اگر ایسا نہ کر سکیں، تو کم از کم انہیں بچّوں کی پہنچ سے تو دُور رکھیں۔ اکثر گھروں میں بچّوں کو روزانہ یا گاہے بہ گاہے تھوڑے بہت پیسے’’چیز کھانے‘‘ کے لیے دیئے جاتے ہیں۔ 

اب ان پیسوں سے بچّہ کیا لے رہا ہے اور اس کی لی ہوئی چیز کس قدر نقصان دہ ہو سکتی ہے؟ زیادہ تر والدین اس سے لاتعلق رہتے ہیں، حالاں کہ اُنھیں بچّوں کو پیسے دے کر لاپروا نہیں ہوجانا چاہیے۔نیز، حکومت کی بھی ذمّے داری ہے کہ وہ اِن مضرِ صحت اشیاء پر پابندی لگائے۔ اگر کسی وجہ سے ایسا مشکل ہو، تو کم از کم ان کے اشتہارات پر تو ضرور پابندی عاید کی جانی چاہیے، جب کہ ان اشیاء کے پیکٹس پر’’مضرِ صحت‘‘ ہونے کی وارننگ بھی درج ہونی چاہیے۔ 

اِس سلسلے میں پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ، سوشل میڈیا پر بھی باقاعدہ ایک مہم چلائی جانی چاہیے، جس کے ذریعے عوام النّاس، خاص طور پر نوجوانوں اور بچّوں کو اِن اشیاء کے نقصانات اور خطرات سے آگاہی دی جاسکے۔ 

ہمیں سوچنا چاہیے کہ کیا واقعی پان، چھالیا، گٹکا، مین پوری اور دوسرے لوازمات اِتنے ضروری اور ناگزیر ہیں کہ اِن کی خاطر اپنی اور اپنے بچّوں کی صحت بلکہ زندگی دائو پر لگا دیں؟یقیناً سب کا جواب نفی میں ہو گا۔تو آئیے! آج ہی سے یہ بُری عادات تَرک کرنے کا عہد کریں۔ (مضمون نگار، لیاقت یونی ورسٹی اسپتال، حیدرآباد سے بطور چیف ڈینٹل سرجن منسلک رہے ہیں)

سنڈے میگزین سے مزید
صحت سے مزید