شاید یہ طویل انسانی غفلت کے بعد شرمندگی کا اظہار ہے یا ’’فساد فی الارض‘‘ کے گناہ کا کفارہ کہ دنیا میں ہر طرف ماحولیاتی اصلاح کا شور ہے۔ ہر شعبہ زندگی میں ترقی اور طویل سفر کے بعد حضرتِ انسان کو احساس ہو گیا ہے کہ وہ زادِ راہِ ترقی میں کوئی چیز گھر پر ہی بھول گیا ہے جسکے بغیر ترقی اور زندگی بے مزہ اور عذاب ناک ہو چکی ہے۔ چنانچہ اب نام نہاد ترقی اور تہذیب نیچر کی طرف لوٹ رہی ہے۔ ماحولیاتی اصلاح کی طرف متوجہ ہو گئی ہے۔ بطرز دیگراں ادارہ اقوامِ متحدہ (UN) نے بھی ماحولیاتی تنزل کی وجوہات کے ادراک کے بعد ٹھوس اقدامات شروع کردیئے ہیں۔ چنانچہ 1972ء کے نیویارک کنونشن سے لیکر 1992ء کی سربراہی کانفرنس اور پھر عالمی ایجنڈا 2030ء تک ایسے اُصول وضع ہو رہے ہیں جنکی مدد سے ماحولیاتی استحصال کم ہو سکتا ہے اور آنیوالی نسلوں کی بقاء کیلئےوسائل کو محفوظ کیا جا سکتا ہے۔
ماہِ اگست 2017ء :پروفیشنل اکیڈمی میں زیرتربیت افسران کا گروپ پائیدار ترقی (Sustainable Development) کے موضع پر ہمہ تن گوش تھا، جس میں مہمان مقرر واضح کر رہے تھے کہ ’’اب ہمیں انفرادی اور مخصوص گروہی ترقی کی بجائے اجتماعی اور پائیدار ترقی کے اُصولوں کو اپنانا ہو گا۔ ہمیں اپنے صنعتی، زرعی اور انفراسٹرکچر منصوبوں کیلئے زمینی وسائل اور توانائی کے بے دریغ استعمال کی بجائے انہیں آئندہ نسلوں کیلئے بھی محفوظ رکھنا ہو گا۔ ہم اپنی ترقی، موجودہ عوام کے روزگار، کاروبار، وسائل اور میرٹ کو تباہ کر کے حاصل کریں گے تو ماحولیاتی بقاء تب بھی پُرخطر ہو جائیگی۔ پائیدار ترقی کے یہ اُصول نہ صرف زمانۂ حال اور مستقبل کے درمیان مضبوط تعلق قائم کرتےہیں،بلکہ ہم اگر تاریخی عمارات ازقسم تاج محل آگرہ، قلعۂ لاہور و دہلی اور دیگر آثارِ قدیمہ کو نئی تعمیرات کی دست برد سے بچا لیں تو انسانوں کی شاندار ترقی و تاریخ میں کوئی خلاء محسوس نہ ہو‘‘۔تاریخی عمارات کے بارے مقرر کے خیالات سن کر سامعین میں کچھ ہلچل پیدا ہو گئی اور شاید یہ ان کیلئے ناگوار تھے۔ لیکچر کے آخر میں سوالات کا سلسلہ شروع ہوتے ہی حاضرین پھٹ پڑے۔ سوال و جواب کی یہ نشست مقرر اور حاضرین کے مابین باقاعدہ بحث کی شکل اختیار کر گئی۔ حاضرین بضد تھے کہ ماضی کے ان ادوار میں اقتدار پر بزورِ بازو قبضہ کرنیوالوں، اپنے خونی رشتہ داروں، احباب کوسفاکانہ قتل کرنے والوں، مخالفین کی کھوپڑیوں کے مینار بنا نے والے حکمرانوں اور انکے ادوار کو پائیدار ترقی کیلئے کیسے منسوب کیا جا سکتا ہے۔ یہ اہرامِ تاج محل، شاہی قلعے، شاہی محل اور ان میں شہزادیوں کی خواب گاہیں، شیش محل اور حمام جو ملوک خاندانوں نے اپنے ذاتی استعمال کیلئے تعمیر کئے اور انکے اخراجات عوامی خزانے اور وسائل سے چھینےگئے۔وہ ادوارکیونکرپائیدارترقی کیلئےنمونہ (Embodiment) ہو سکتے ہیں، جبکہ پائیدار ترقی تو تقاضا کرتی ہے کہ پراجیکٹس کی تعمیر کیلئے زمینی اور انسانی وسائل کا بے جا استعمال نہ کیا جائے، انکا استحصال نہ کیا جائے اور زبردستی قبضہ نہ کیا جائے۔ سامعین کا کہنا تھا کہ ان عمارات کے فن تعمیر سے محدود استفادہ کے سوا آنیوالی نسلوں کو ان تعمیرات سے کیا فائدہ ہے۔ اس کیلئے ان کو 3D ٹیکنالوجی کی دستاویزات میں تبدیل کر کے آرکائیوزمیں بھی محفوظ کر لیا جائے۔ یہ عمارات ماضی کے استحصالی، آمرانہ اور فسطائیت (brutel) نظام کی نشانیاں ہیں۔ انکے تحفظ پر کثیر سرمایہ خرچ کرنے کی بجائے بہتر ہے، انکی جگہ پر عوام الناس کی بھلائی کیلئے جدید عمارات تعمیر کر لی جائیں یا انہیں کسی فلاحی تصرف میں لایا جائے۔ زیرتربیت شرکاء کے ان نظریات سے کافی حد تک اتفاق ممکن بھی ہے۔ ہم نوآبادیاتی اور آمرانہ ادوار کی ان بے مقصد عمارات کا زرکثیر سے تحفظ جاری رکھیں گے تو آنیوالی نسلوں کی نفرت کو دبا نہیں سکیں گے، کیونکہ آج کی نوجوان نسل ماضی کی ان غاصبانہ حکومتوں کو اپنے استحصال اور غربت کا ذمہ دار سمجھتی ہے۔ یہ ادوار نئی نسل کیلئےپسندیدہ نہیں۔ دوسری صورت میں ان ادوار کی تاریخی عمارات کا تحفظ ماضی کے آمر حکمرانوں کے نظریات، طاقت اور نام نہاد عظمت رفتہ کو دوبارہ زندہ کر سکتا ہے اگر ہم مسولینی کے امپریل بازار، اسٹالن کی قلعہ نما عمارات اور آمر ادوار کے عقوبت خانوں کو قائم رکھیں گے تو یہ موجودہ ادوار کے لینڈسکیپ میں تضاد کا تاثر دیتی ہیں۔ ماضی کے شہزادوں، شہزادیوں کے علیحدہ علیحدہ محل،قلعے، مصر کے اہرام، ان عمارات کا موجودہ استعمال کیا ہے۔ یہ دیوارِ چین، اہرام مصر وغیرہ کے علامتی (Monumental) وجود کے سوا مفید مقاصد کچھ نہ تھے، ماسوائے دولت و حشمت کی نمائش کے۔ کیا اس طرزِ تعمیر کو موجودہ دور میں اختیار کیا جا سکتا ہے نیز عوام الناس کو ایسی تعمیرات سے کیا فوائد حاصل ہو سکتے ہیں؟ نئی نسل بالعموم ماضی کے تاریک ادوار اور حقائق کو بھلا بیٹھتی ہے۔ پرانی عظیم عمارات کو بحال کر کے ہم آنیوالی نسلوں کے سامنے ایک زندہ ثبوت (tangible symbol) کھڑا کر دیتے ہیں اور یوں تاریخی حقائق کے برعکس ماضی کے سفاک ادوار کے بارے میں خوشگوار تاثرات قائم ہو جاتے ہیں۔ بعض اوقات آنے والے آمر اور ملوک حکمران اس ’’شاندار عظمت رفتہ‘‘ کے احیاء کا نعرہ لگا کر سادہ لوح جذباتی عوام کو بے وقوف بنا دیتے ہیں اور اپنے غیرقانونی اقتدار کو مقبول عام بنا کر دوام بخشتے ہیں۔ یہ رویہ ماحولیاتی اور انسانی بقاء کیلئے فائدہ مندنہیں ہے۔
گزشتہ بحث و نظر سے مترشح ہوا کہ ہمیں ایک ایسا حقیقت پسندانہ ضابطہ (Protocol) وضع کرنا ہو گا جسکی روشنی میں صرف منتخبہ تاریخی ورثہ اور عمارات کا ہی تحفظ ہو۔ اس مقصدکیلئےیونیسکو (UNESCO) کے زیرانتظام عالمی کنونشن منعقدہ 1972ء کے فیصلوں سے رہنمائی حاصل کی جا سکتی ہے جسکے مطابق ’’آنیوالی نسلوں کے استفادہ کیلئے صرف قومی و ثقافتی پہچان رکھنے والی عالمی اور ممتاز اقدار کی حامل تعمیرات / تاریخی مقامات کا تحفظ کیا جائے‘‘۔ بلاتفریق تمام مذہبی مقامات و عمارات کو استثنیٰ کے ساتھ۔ ہم یونیسکو کے وضع کردہ اُصول کو پیش نظر رکھیں تو نام نہاد تاریخی عمارات اور ان پر اُٹھنے والے زرکثیر سے جان چھڑا سکتے ہیں یا انہیں متبادل استعمال میں لا سکتے ہیں۔ یوں ماضی کے نوآبادیاتی اور آمرانہ ادوار کی تلخ یادیں جو ان عمارات کو دیکھ کر عود کر آتی ہیں۔ وہ آئندہ نسلوں کے ذہنوں سے محو ہو جائیں گی۔ پائیدار ترقی اور ماحولیاتی احیاء کا بھی یہی تقاضا ہے۔؎
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پر اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں