امجد عثمانی کا کالم نظر سے گزرا، اسی روز میرے دو راوینز دوست ریحان خان اور ڈاکٹر طاہر رشید کہنے لگے’’ ایک عظیم استاد کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے اور آپ کا قلم خاموش ہے‘‘۔ میں نے اپنے دونوں دوستوں سے عرض کیا، پہلی بات تو یہ ہے کہ مجھے اس کا علم نہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی ظلم ہو گا تو میرا قلم ظالم کو للکارے گا، یہ تو پھر ایک استاد کا معاملہ ہے، یہاں تو مجھے قلم کو تلوار بنانا پڑا تو اس سے بھی گریز نہیں کروں گا۔ پڑھانا کتنا افضل کام ہے، لوگوں کو اس کا اندازہ ہی نہیں۔ ہمدمِ دیرینہ سہیل وڑائچ ایک دن کہنے لگے کہ’’میں ایف سی کالج اور پھر پنجاب یونیورسٹی میں صرف اس لئے پڑھاتا رہا کہ میرے والد نے مجھے نصیحت کی تھی کہ پڑھانا نہیں چھوڑنا‘‘۔ بات کہیں اور نکل جائے گی، پہلے امجد عثمانی کے کالم کی چند سطور دیکھ لیں، ’’شکرگڑھ میں ڈاکخانے والی گلی کے اس گھر کا اپنا ہی’ تقدس ‘ہے کہ یہ’چشمہ علوم‘ ٹھہرا اور تشنگان علم آج تک یہاں سے اپنی علمی پیاس بجھا رہے ہیں۔۔شاید اسی گھر کی وجہ سے اس گلی کو بھی عزت ملی اور طالب علم اس گلی میں داخل ہوتے ہی سر جھکا دیتے کہ حد ادب ،آگے پروفیسر صاحب کا گھر ہے...قیام پاکستان سے پہلے تعمیر اس گھر کے مکین’لیجنڈ آف شکرگڑھ‘پروفیسر مقصود صاحب ہیں...وہ اسی’’غریب خانے‘‘سے اٹھے اور پروفیسر بنے، دوسرے بھائی بھی پروفیسر ہیں۔ دونوں بھائی اتنے ایماندار ہیں کہ اگر گھر جا کر پتہ چلے کہ کالج سے ایک تنکا بھی کپڑوں سے چمٹ کر آگیا ہے تو اسی وقت اسے واپس کالج میں چھوڑ کر ہی دم لیتے ہیں۔ دونوں بھائی ٹیوشن کے بجائے کالج میں چھٹی کے بعد زیرو پیریڈ کے نام سے مفت پڑھاتے...چاہتے تو سائنس کی ٹیوشن کی کمائی سے’ایمپائر‘کھڑی کر لیتے لیکن انہوں نے ایسی امارت پر تھوک دیا۔ پروفیسر مقصود صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر آفس میں عجب جملہ کہا...کہ دل کرتا ہے درخواست کے نیچے
CC to Almighty Allah....!!! لکھ دوں...‘‘پروفیسر مقصود صاحب نے اسسٹنٹ کمشنر کے نام درخواست تو انگریزی زبان میں لکھی مگر میں یہاں اس کا ترجمہ پیش کر رہا ہوں،
برائے: اسسٹنٹ کمشنر
تحصیل شکرگڑھ (ضلع نارووال)
موضوع: ڈاکخانہ گلی کی کشادگی کے معاملے میں خواہش کے بجائے میرٹ پر فیصلہ کرنے کی گزارش
جنابِ عالی،بصد احترام عرض ہے کہ میں گلی/سڑک ڈاکخانہ کا رہائشی ہوں۔ ہمارے مرحوم والد صاحب سے وراثت میں ملنے والے گھر کی شمالی دیوار اس گلی کی جنوبی حد بندی بناتی ہے۔ یہ دیوار دراصل پرانے ڈاکخانے کی جنوبی دیوار متصل تھی۔ جب ڈاکخانہ ازسرِنو تعمیر ہوا تو متعلقہ حکام نے کافی جگہ خالی چھوڑ دی، جس میں مرکزی دروازے کی سیڑھیاں بھی شامل ہیں، اور اسکے مشرقی جانب چند فٹ چوڑی ایک پٹی بھی چھوڑ دی گئی، جس کی شمالی دیوار ڈاکخانے کی اصل حدود کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ دیوار ہمارے گھر کی شمالی دیوار اور پرانے ڈاکخانے کی ملحقہ دیوار کی بالکل سیدھ میں ہے۔
جناب عالی! آپ کے زبانی حکم کے مطابق ہمیں اپنی دیوار اور گھر کے متعلقہ حصے کو منہدم کرنے کا پابند کیا جا رہا ہے تاکہ گلی کو کشادہ کیا جا سکے۔ یہ حکم نہ صرف قواعد و ضوابط کے خلاف ہے بلکہ صریحاً ناانصافی بھی ہے۔ متعلقہ دیوار کسی طور پر تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی، جس کی گواہی ڈاکخانے کے قدیم آثار اور ہمارے گھر کی غیرمتزلزل بنیادیں دیتی ہیں۔
اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ سب انا کی ایک زنجیر کا نتیجہ ہے،جسکے بالائی درجے میں حکومت ہے اور اس کے ماتحت تمام سطحیں، جن میں آپ کی سطح بھی شامل ہے، اس کی پابند ہیں۔ یہ تمام سطحیں میری طرح بےبس ہیں، اگرچہ ان پر ایک مشکل اور ناشکری پر مبنی ذمہ داری عائد ہے کہ وہ قانون اور خواہشات کے درمیان فرق کریں،خواہشات جو کسی قاعدے کی پابند نہیں ہوتیں۔ گلی کو کشادہ کرنا شاید اسی نوعیت کی ایک خواہش ہے۔
مؤدبانہ گزارش ہے کہ آپ ازخود اس بات کی چھان بین کریں کہ آیا واقعی یہ جگہ تجاوزات میں آتی ہے۔ اگر میں یہ کہہ دوں کہ میرا گھر، آپ کا دفتر، اور ہمالیہ تک کا تمام علاقہ ناجائز ہے کیونکہ یہ سب صدیوں پہلے بحیرۂ عرب کا حصہ تھا، تو کیا یہ بات قابلِ عمل ہوگی؟ آخر کوئی نہ کوئی زمانی حد یا اصل بنیاد تو ہوگی جسکے تحت ہمارے گھر کی شمالی دیوار کو تجاوزات قرار دیا گیا ہے۔ ہماری یہ دیوار قیامِ پاکستان سے بہت پہلے، قبل از تقسیم موجود تھی،1947ء سے کئی برس قبل۔
میں دوسروں کی من مانی خواہشات پوری کرنے سے قاصر ہوں جبکہ میری اپنی چھوٹی چھوٹی جائز ضروریات پوری نہیں ہوتیں۔ اگر ان کی خواہشات پوری کرنا ضروری ہے تو وہ اپنے خرچے پر کریں، کسی مجبور شخص’میرے جیسے‘کے سر پر یہ بوجھ نہ ڈالا جائے۔
آخر میں آپ کی صحت و عافیت اور اعلیٰ حوصلوںکیلئے دعاگو ہوں۔نیک تمناؤں کے ساتھ(اگر میری جسارت محسوس ہو تو معذرت چاہتا ہوں)،مقصود احمد،ایسوسی ایٹ پروفیسر آف بیالوجی (ریٹائرڈ)
گورنمنٹ کالج شکرگڑھ۔
اس خط کے بعد طاقتور افراد کو چاہئے کہ وہ معاشرے میں کسی کو تو بخش دیں، یہی سوچ لیں کہ استاد تو استاد ہوتا ہے۔ استاد کا تو ڈاکو بھی احترام کرتے ہیں۔ ظلم و نا انصافی کی حالیہ فضا میں جالب یاد آتا ہے کہ
ایسے دستور کو، صبح بےنور کو
میں نہیں مانتا، میں نہیں جانتا!