عراق کا تذکرہ کہاں سے شروع کریں؟ نمرود سے یا جارج ہربرٹ واکر بُش اور اُس کے بیٹے جارج واکر بُش سے، جو دونوں امریکا کے صدر بنے اور دونوں نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجانے اور اس مُلک کو تباہ کرنے میں بدترین کردار ادا کیا۔عراق کبھی’’بابل‘‘کہلاتا تھا اور ایک طاغوت، سرکش اور جابر و ظالم، نمرود اس پر حکومت کرتا تھا۔
ابنِ کثیرؒ نے’’البدایہ و النّہایہ‘‘ میں چار افراد کا ذکر کیا ہے، جنہیں پورے کُرّۂ ارض پر اقتدار حاصل ہوا۔ ان میں ذوالقرنین اور حضرت سلیمان علیہ السّلام مومن تھے، جب کہ نمرود اور بخت نصر کافر تھے۔ آخر الذّکر دونوں کا تعلق اسی سرزمینِ عراق سے تھا۔ بعض مؤرّخین نے نمرود کا تعلق سمیری نسل سے بتایا ہے اور کچھ کے نزدیک وہ کلدانی تھا۔
سمیری کئی ہزاریے پہلے آباد قدیم نسل تھی اور کلدانی آج سے تقریباً چار، ساڑھے چار ہزار سال پہلے غالب آنے والی قوم تھی۔ بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ نمرود پہلا شخص تھا، جس نے شہنشاہ کی حیثیت سے سر پر’’ تاج‘‘پہنا تھا۔ قدیم’’مجدل‘‘ شہر اِسی نمرود نے آباد کیا تھا۔
شہر ’’اُر‘‘ ((Urکلدانی بستیوں میں سے ایک مشہور شہر تھا، جہاں سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام پیدا ہوئے۔ یہ شہر جنوبی عراق میں ناصریہ کے قریب واقع تھا۔ تقریباً دو ہزار سال بعد’’سومریہ‘‘ شہر اِسی مقام پر آباد ہوا۔
اگرچہ تورات اور قرآنِ مجید، دونوں میں اُس بادشاہ کا نام نہیں آیا، جس کے ساتھ سیّدنا ابراہیم علیہ السّلام کا مکالمہ ہوا تھا اور جس نے آپؑ کو آگ میں پھینکنے کا حُکم دیا تھا، لیکن’’تلمود‘‘ میں حضرت ابراہیمؑ کے ساتھ ہونے والی کشمکش میں اُس بادشاہ کا نام’’نمرود‘‘ بتایا گیا ہے۔
واضح رہے کہ’’تلمود‘‘ اُس دَور میں مرتّب ہوئی تھی، جب بخت نصر نے فلسطین میں بنی اسرائیل کی سلطنت تہس نہس کر دی تھی اور تورات کا اصل نسخہ اور حضرت موسیٰ علیہ السّلام کے تبرکات بھی اُٹھا کر لے گیا تھا۔ اُس نے یہودیوں کی ایک بڑی تعداد کو جبری طور پر جلاوطن کر کے بابل میں قیدی بنا لیا تھا۔
بابل میں نظربند اُنہی یہودی علماء نے’’تلمود‘‘ مرتّب کی اور اُس میں بہت سی مقامی روایات داخل کر دیں۔ اُن یہودیوں نے ظاہر ہے کہ بابل کی اسیری کے عرصے میں بارہا نمرود کا قصّہ سُنا ہو گا اور اُس کا نام اُنہیں ازبر ہو گیا ہوگا۔ بائبل کا خواہ عہدِ قدیم ہو یا جدید، اُس میں ہر دَور اور ہر علاقے میں تبدیلیاں ہوتی رہی ہیں۔ جدید بائبل کے عہدِ قدیم میں اب نمرود کا نام شامل ہے۔
رسول اللہ ﷺ کی بعثت کے وقت عراق پر ساسانی(ایرانی) حکومت تھی۔636عیسوی میں قادسیہ کی جنگ میں عراق فتح ہوا اور اسلامی خلافت کا حصّہ بنا۔ حضرت علیؓ اور حضرت امیر معاویہؓ کے درمیان تنازعے کے دَوران عراق میں کوفہ، حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ہیڈ کوارٹر بنا اور بعد میں اُنہوں نے مدینہ شریف کی بجائے کوفہ ہی کو دارالخلافہ قرار دیا۔ اس کے بعد عراق پے در پے جنگوں کا نشانہ بنتا رہا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خلافت ہی میں عراق(اور ایران) سے خارجی گروہ اُٹھا، جو پورے اموی اور عباسی عہد میں تاخت و تاراج اور قتل و غارت کرتا رہا۔اس کا سرغنہ عبداللہ بن شداد کوفی تھا۔
حرواء کے مقام کو اُنہوں نے اپنا مرکز بنا لیا تھا، اِسی نسبت سے یہ’’حروری‘‘ کہلائے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اُن کے ساتھ پہلے بہت نرمی برتی اور جب تک یہ مسلّح ہو کر بغاوت اور سرکشی پر نہ اُترے، امیرالمومنین حضرت علیؓ اُن کے معاملے میں فہمائش اور تلقین و نصیحت سے کام لیتے رہے۔
آخر جب اُنہوں نے نہروان کو مرکز بنا کر اسلامی خلافت سے باقاعدہ بغاوت شروع کی، تو پھر اُن کے خلاف سخت کارروائی کا فیصلہ کیا اور نہروان کی جنگ میں اُنہیں شکست دی۔ لیکن اُن کا مکمل خاتمہ ہوسکا اور نہ ہی یہ اپنے عقائد و نظریات سے باز آئے۔ نہروان، دجلہ کے مشرقی ساحل اور دریائے دیالہ کے زیریں بہائو پر آب پاشی کا ایک شان دار نظام تھا۔ اِسی نسبت سے اس کا نام’’نہروان‘‘ پڑ گیا۔یہ عراق کا تجارتی مرکز بھی تھا۔
بات عراق سے چلی تھی اور نمرود سے ہوتی ہوئی’’نہروان‘‘ تک پھیل گئی۔ ہمارا اصل موضوع جدید عراق ہے، جسے برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کو ساتھ ملا کر بُش خاندان نے یکے بعد دیگرے تباہ کیا۔ یہ تو غیر تھے۔
عراق کی کہانی اُس وقت تک مکمل نہیں ہوتی، جب تک شریفِ مکّہ، حسین بن علی کی برطانوی سام راج کے ساتھ ساز باز اور خلافتِ عثمانیہ سے غداری کی قیمت کے طور پر اپنے بیٹوں کے لیے شام اور عراق کی بادشاہت کی طلب کا ذکر نہ کیا جائے۔
فیصل اوّل، شریفِ مکّہ کا تیسرا بیٹا تھا، جس نے شریفِ مکّہ کا لقب بھی اختیار کیا اور عثمانی خلافت کے خاتمے کے بعد1921ء میں عراق کا پہلا بادشاہ بنا۔ اس کی بادشاہت 1933ء تک رہی۔ عثمانی خلافت کے خلاف بغاوت کے نتیجے میں شریفِ مکّہ کا دوسرا بیٹا، فیصل بن حسین شام کا بادشاہ بنا اور ایک بیٹے، عبداللہ بن حسین کو اردن کی بادشاہت ملی۔
فیصل اوّل کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا، غازی اوّل عراق میں برسرِ اقتدار آیا، لیکن1939 ء میں وہ بغداد میں کار کے ایک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔ تاریخ میں بادشاہتوں کا یہ کھیل کئی ممالک میں ہوا کہ اقتدار پر موروثی قبضہ برقرار رکھنے کے لیے نادان بچّوں کو بادشاہ بنا دیا جاتا تھا۔
فیصل اوّل کے بیٹے غازی اول کے کم سِن بیٹے، فیصل ثانی کو تین سال کی عُمر میں عراق کا بادشاہ قرار دیا گیا۔ اس بچّے کا چچا، عبداللہ اُس کی سرپرستی کرتا رہا، یہاں تک کہ وہ 1953ء میں اٹھارہ سال کی عُمر کو پہنچ کر باپ اور دادا کے وارث کی حیثیت میں بااختیار بادشاہ بن گیا۔
اُس عرصے میں سعودیہ کے بعد عراق میں بھی تیل کے چشمے دریافت ہوئے اور دولت کی ریل پیل ہو گئی۔ تیل کی دولت نے صنعتی ترقّی کا راستہ ہم وار کیا اور عراق کو عالمی برادری میں بہت اہمیت حاصل ہو گئی۔ تیل کی دولت سے بظاہر خوش حالی آئی، لیکن تیسری دنیا کے کئی دوسرے ممالک اور اکثر مسلمان ممالک کی طرح دولت کا ارتکاز ہوا۔
امیر، امیر تر ہوگئے اور عوام پر غُربت و افلاس کے سائے گہرے ہو گئے۔ اکثر عراقی بچّے تعلیم سے محروم تھے، لیکن شاہی خاندان کی اولاد یورپ اور امریکا کے اعلیٰ تعلیمی اداروں میں تعلیم پا رہی تھی۔ اِن حالات میں شاہی خاندان سے نفرت بڑھتی جا رہی تھی۔ ویسے معاشی طبقات کی اِس تصویر میں کچھ رنگ آمیزی بھی ہوئی۔
مسلم ممالک میں عوامی بے چینی اور محرومی کے جذبات کا مداوا تعمیر و ترقّی سے کم ہوا، البتہ فوج کو موقع ملتا رہا کہ وہ ان جذبات کو ایکسپلائٹ کر کے اقتدار پر قبضہ کر لے۔ عراق میں بھی یہی ہوا۔ جنرل عبدالکریم قاسم نے اپنے ایک ماتحت عبدالستار العبوسی کو حکم دیا کہ شاہی خاندان کے تمام افراد قتل کر دیے جائیں۔ 1939ء سے 1958ء تک شاہی منصب پر فائز فیصل ثانی کو سولی پر لٹکا دیا گیا، جب کہ اُس کے چچا کا بھی یہی انجام ہوا۔
ولی عہد عبداللہ کو بھی پھانسی دے دی گئی۔ سفّاکی کا یہ حال تھا کہ شاہی محل کے ملازموں کو بھی بے دردی سے قتل کیا گیا۔ یوں عراق میں ہاشمی خاندان کی بادشاہت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہو گیا۔ فوجی ڈکٹیٹر اگر نمرود جیسی وسیع سلطنت پر قابض نہیں تھے، تو اپنے وطن کے فرعون ضرور بن گئے تھے۔
واضح رہے کہ1958 ء میں عراق کے اندر عبدالکریم قاسم نے انقلاب برپا کیا، ٹھیک اُسی سال 1958 میں پاکستان میں جنرل ایّوب خان نے فوجی انقلاب کے ذریعے اپنی طویل آمریت قائم کی، جس کا وقفے وقفے سے تسلسل جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویز مشرف کی صُورت قائم رہا۔ مِصر میں جمال عبدالناصر کی آمریت قائم ہوئی، تو اُس نے عرب قوم پرستی کے تصوّر میں نئی روح پھونک دی۔ عرب دانش گاہوں، تعلیمی اداروں، اخبارات و رسائل اور علمی و فکری فورمز پر، گویا ہر جگہ عرب قوم پرستی کا صور پھونکا جانے لگا۔
اُدھر شام میں ایک عیسائی، مائیکل عفلق نے سوشلسٹ بعث پارٹی کی بنیاد رکھی۔ نظریاتی طور پر یہ پارٹی روس کے زیرِ اثر تھی، لیکن عرب قومیت، اتحاد اور سوشلزم کی عَلم بردار تھی۔ شام کے ساتھ عراق میں بھی یہ پارٹی قائم ہوگئی۔عبدالکریم قاسم عرب قوم پرستی کی بجائے عراقی قومیت پر زور دیتا تھا، اِس لیے بعث پارٹی اُس کے خلاف ہوگئی۔
نظام میں خرابیوں کے باوجود کسی نہ کسی قدر استحکام اور تسلسل ضرور قائم رہتا ہے، جب کہ خرابیوں کی اصلاح کے امکانات بھی موجود ہوتے ہیں، لیکن اگر نظام کو انقلاب کے نام پر اُکھاڑ پھینکا جائے، تو پھر افراتفری، انتشار، عدم استحکام پیدا ہو جاتا ہے۔’’فوجی انقلاب‘‘ ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر دیتا ہے اور طالع آزمائوں کے لیے راستا کھُل جاتا ہے۔ عراق میں شام کی طرح انقلابات کی چکّی چل پڑی اور انقلاب دَر انقلاب رُونما ہونے لگے۔
عبدالکریم قاسم کے خلاف آٹھ سے دس فروری کے درمیان اُس کے اپنے ساتھی، عبدالرحمٰن عارف نے’’انقلابِ رمضان‘‘ برپا کیا۔ یہ مصر کے ڈکٹیٹر، جمال عبالناصر کا سیاسی مرید تھا اور اس نے عراق میں مصر کے’’سماجی انصاف‘‘ والا فلسفہ اپنایا۔ عرب سوشلسٹ پارٹی کو عراق کی قانونی پارٹی کا درجہ حاصل ہوگیا، لیکن’’انقلاب‘‘ کی ڈھلان پر رکھا ہوا قدم جم نہ سکا۔عبدالرحمان عارف کے خلاف احمد حسن البکر اور صدام حسین نے انقلاب برپا کیا۔
انقلاب کی پھسلن پر رکھا ہوا قدم صدام حسین جیسے بدترین ڈکٹیٹر پر آ کر رکا۔اب انقلاب کی پھسلن تو کچھ عرصے کے لیے رُک گئی، لیکن مُلکی نظام میں امن، انصاف، عزّت و آبرو اور جان و مال کی حفاظت کی ضمانت ختم ہوگئی۔ صدام حسین ایک سفّاک آدمی تھا۔ اُس نے مُلک میں دہشت اور خوف کی فضا قائم کی۔
وہ بعث پارٹی سے تھا، لیکن شام اور عراق کی بعث پارٹیوں کے مزاج میں فرقہ وارانہ فساد کی یہ حالت تھی کہ شام میں علوی آمر، حافظ الاسد سُنیوں کے خون کا پیاسا تھا اور صدام حسین کو شیعہ اور کُرد خون کی لت پڑ گئی تھی، لیکن وہ صرف شیعوں اور کُردوں کے خون کا پیاسا نہیں تھا، بلکہ سُنیوں میں بھی جس سے اختلاف ہو جاتا، اُسے وحشیانہ انداز میں ختم کر دیتا تھا۔
یہاں تک کہ اُس نے اپنے دامادوں کو بھی نہ بخشا۔ اُسے اپنی بیٹی، رغدا حسین کے شوہر حسین کامل اور دوسری بیٹی کے شوہر، صدام کامل کی وفاداری کھٹکنے لگی، تو اُن کی جانیں خطرے میں پڑ گئیں۔ وہ بھاگ کر اُردن چلے گئے۔کچھ عرصے بعد صدام حسین نے دونوں کو معاف کرنے کا وعدہ کیا، جس پر وہ واپس آ گئے، مگر واپسی کے تیسرے ہی روز دونوں کو ہلاک کر کے اعلان کیا گیا کہ اُن کے رشتے داروں نے اُنہیں قتل کیا ہے۔
ایران کے شاہ، رضا شاہ پہلوی کو امریکا نے پورے شرقِ اوسط کا’’پولیس مین‘‘ بنا رکھا تھا۔ وہ بھی بڑا ظالم اور اسلام دشمن تھا۔ ایرانی علماء میں رُوح اللہ خمینی نے شاہ کے جبر سے تنگ آکر جلاوطنی اختیار کر لی تھی، لیکن وہ ایرانی عوام میں بہت مقبول تھے۔ اُن کی تحریک پر ایرانی عوام پہلوی بادشاہت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور فروری1979ء میں ایک زبردست تحریک کے نتیجے میں شاہِ ایران مُلک سے فرار ہو گیا اور اقتدار مذہبی طبقے کے ہاتھ آ گیا۔
بعدازاں، انقلابیوں نے اس انقلاب کو دوسرے ممالک تک پھیلانے کی باتیں شروع کر دیں۔ رضا شاہ پہلوی کی معزولی امریکی مفادات کے لیے ایک بڑا دھچکا تھا۔ امریکا کو ایرانی انقلاب کی جڑیں گہری ہونا گوارا نہیں تھا۔ اُس نے ایک طرف خلیجی عرب ریاستوں کو اس انقلاب سے خوف زَدہ کیا اور دوسری طرف، عراقی آمر صدام حسین کی پُشت پناہی کی اور اسے ایران پر حملے کے لیے اُبھارا۔ خلیجی عرب ممالک کو صدام حسین کی مالی مدد کا’’حکم‘‘ ہوا۔
اُس وقت کویت خلیجی ریاستوں میں سب سے امیر مُلک تھا،جس کا معیارِ زندگی اور فی کس آمدنی یورپی ممالک کے برابر تھی۔ کویت کی سرحدیں عراق سے ملتی تھیں۔ صدام حسین نے دعویٰ کیا کہ ماضی میں کویت، عراق کا حصّہ تھا، حالاں کہ ماضی میں کویت عثمانی خلافت کے تابع تھا۔
پہلی جنگِ عظیم کے بعد خلیجی خطّے میں جو لکیریں کھینچی گئیں، اُن سے خلیجی ریاستوں کی سرحدیں قائم ہوگئیں۔ کویت نے عراق، ایران جنگ کے دَوران عراق کو14بلین ڈالرز بطورِ قرض دیا تھا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد کویت نے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا، جس پر برہم ہو کر صدام حسین نے کویت پر حملہ کر دیا۔اُس کے بینک، سونے کے ذخائر اور قیمتی ہیرے لُوٹ لیے، جب کہ تیل کے کنوؤں میں آگ لگا دی۔
امریکا کے کھیل کے سبب عراق، ایران سے آٹھ سال لڑ کر عسکری اعتبار سے پہلے ہی کھوکھلا ہو چُکا تھا۔ اب کویت کے بہانے جارج ہربرٹ واکر بُش کو اسرائیل کے ایما پر عراق پر حملہ کر کے اُسے کھنڈر بنانے کا بہانہ مل گیا۔ عراق کا انفرا اسٹرکچر، کمیونی کیشن نیٹ ورک، عسکری مراکز، پُل، سڑکیں، بجلی گھر اور اسلحے کی فیکٹریز تباہ کر دی گئیں، جب کہ عراق کا ایٹمی مرکز اسرائیل پہلے ہی تباہ کر چُکا تھا۔لیکن عراق کی تباہی کا سلسلہ ختم نہیں ہوا تھا۔
گیارہ ستمبر 2001ء کو امریکا کے شہر نیویارک میں جڑواں ٹاورز سے جہاز ٹکرائے، جس کی ذمّے داری القاعدہ نے قبول کی، لیکن امریکی صدر جارج ڈبلیو بُش اور برطانوی وزیرِ اعظم ٹونی بلیئر کے اتحاد نے عراق پر القاعدہ سے تعلق اور وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار رکھنے کا الزام لگا کر، کسی عالمی ادارے کی منظوری کے بغیر 2003ء میں حملہ کر دیا۔ ہزاروں عراقی فوجی اور لاکھوں سویلینز اس جنگ کا لقمہ بنے۔
ہزاروں بچّے دودھ میسّر نہ آنے سے موت کے منہ میں چلے گئے۔ القاعدہ اور داعش کی بَلائیں الگ عراقیوں پر ٹوٹیں۔ 2003ء سے لے کر القاعدہ اور داعش کی دہشت گردی تک، دو لاکھ دس ہزار، نوے سویلین موت کے منہ میں چلے گئے۔ عراق میں صدام حسین جیسے یزید سیکڑوں گزرے اور پتا نہیں ابھی مزید کتنے یزید لوگوں کے خون سے ’’کربلائیں‘‘ سجانے آئیں گے۔ (مضمون نگار، لگ بھگ 40 برس تک شعبۂ تعلیم سے وابستہ رہے۔ معروف مذہبی اسکالر اور کئی کتب کے مصنّف ہیں)