ہمارے ایک دوست حال ہی میں طویل علالت کے بعد صحت یاب ہوئے ہیں۔ موصوف چلنے پھرنے کے قابل ہوئے تو پہلا بیان انہوں نے عیادت کرنے والوں کے خلاف داغا بولے’’ تمہیں پتہ ہے بیماری میں مجھے سب سےزیادہ تکلیف کس نے پہنچائی ؟“کس نے ؟ میں نے پوچھا’’عیادت کرنے والوں نے‘‘ دوست نے جواب دیا’’وہ کیسے؟’’وہ ایسے کہ صبح سے شام تک ان کا تانتا بندھا رہتا تھا ایک آتا تھا دوسرا جاتا تھا ۔‘‘
یہ تو اچھی بات ہے اپنوں اور غیروں کا پتہ ایسے مواقع پر چلتا ہے !’’میں نے کب کہا ہے کہ یہ اچھی بات نہیں !‘‘تمہاری باتوں سے تو مجھے یہی محسوس ہوا۔’’ تم نے ابھی میری بات سنی کب ہے؟ یہ عیادت کرنے والے میری حالت دیکھ کر ایسے مغموم چہرے بناتے تھے کہ لگتا تھا مجھ سے زیادہ دکھی یہ ہیں ۔“ظاہر ہے عزیز واقارب کو دکھ تو ہوتا ہی ہے۔
’’ہاں تمہاری بات اصولی طور پر ٹھیک ہے۔ غلط تو یہ اس وقت ثابت ہوئی جب ان میں سے کچھ نے کہا کہ کوئی مسئلہ ہو تو ہمیں بتاؤ اس پر میں نے ان کا شکریہ ادا کیا لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ نہیں ہمیں خدمت بتاؤ ہم تمہیں صحت یاب دیکھنا چاہتے ہیں۔میں سمجھا کہ وہ خلوص دل سے اس مشکل وقت میں میرے کام آنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ میں نے ایک سے جھجکتے جھجکتےکہا میری علالت کی وجہ سے بچے اسکول نہیں جار ہے کیونکہ انہیں لانے لے جانے والا کوئی نہیں جس سے ان کی تعلیم کا حرج ہو رہا ہے آپ اپنے بچوں کو اسکول چھوڑنے جاتے ہیں رستے میں میرے بچوں کو بھی پک کر لیا کریں‘‘۔تو کیا انہوں نے انکار کر دیا ؟’’نہیں پورے ایک ہفتے تک بچوں کو لے جاتے رہے اس کے بعد انہوں نے شکل ہی نہیں دکھائی ‘‘
یہ تو واقعی بری بات ہے؟
’’ابھی تو میں نے تمہیں اور بھی بہت سی بری باتیں سنانی ہیں ۔مثلاً یہ کہ میری بیوی میری دیکھ بھال کرتے کرتے خود بیمار ہوگئی اس پر میں نے ایک غم خوار سے کہا کہ آپ آج کی رات میری دیکھ بھال کے لیے یہیں رک جائیں میں کل کوئی اور انتظام کرلوں گا۔ انہوں نے خندہ پیشانی سے کہا۔کیوں نہیں کیوں نہیں میں گھر اطلاع دے کر ابھی آتا ہوں ۔ مگر تھوڑی دیر بعد ان کی جگہ ان کی بیوی کا فون آیاکہ گھر آتے ہی انہیں تیز بخار ہو گیا ہے اس لیے وہ نہیں آسکیں گے ؟‘‘
چلو چھوڑ یارا کوئی اور بات کرو!میں نے بدمزہ ہو کر کہا۔’’کیسے چھوڑوں مجھے تو ان خالی عیادت کرنے والوں سے چڑ ہو گئی ہے۔ شکر ہے تم ان دنوں بیرون ملک تھے۔اچھا دفع کرو کوئی اور بات کرتےہیں‘‘۔’’اپنی بات تو تم نے کہہ دی۔میں نے ابھی اپنی بات نہیں کہی، کیونکہ یہ عیادت کرنے والے اب بھی سخت پریشان کرتے ہیں ‘‘۔
وہ کیوں تم تو ٹھیک ہو گئے ہو۔’’میں تو ٹھیک ہو گیا یہ ٹھیک نہیں ہوئے ابھی کل ایک صحافی دوست آئے ملکی حالات پر سخت پریشان تھے۔ پاکستان کا نام ان کی زبان پر آتا تھا تو آب دیدہ ہو جاتے تھے۔ میں نے ان کی یہ حالت دیکھی تو کہا کہ آپ اگر چاہیں تو ملک کو ان خطرات سے نکال سکتے ہیں‘‘۔ بولے ،وہ کیسے؟میں نے کہا آپ ان تمام افراد کے چہروں پر سے نقاب اُٹھا ئیں جو حکومت کےاندر اور حکومت کے با ہر ملکی سالمیت کے خلاف کام کر رہے ہیں ! کہنے لگے حتی المقدور یہ کام کرتا رہتا ہوں، میں نے کہا’’حتی المقدور کیا ہوتا ہے اگر ملک بچانا ہے تو پورا سچ لکھنا ہوگا ‘‘۔کہنے لگے۔’’ تم ان باتوں کو نہیں سمجھتے میں بے عمل ضرور ہوں تا ہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ مجھے پاکستان سے محبت نہیں اور پاکستان کا نام زبان پر آنے پر ایک بار پھر وہ آبدیدہ ہو گئے ؟ ‘‘یہ عیادت کے ذکر میں پاکستان کہاں سے آ گیا !
’’کیا تمہیں نہیں پتہ... یہ کیسے درمیان میں آ گیا ؟ یہ لوگ بیمار پاکستان کی عیادت دن میں کئی بار کرتے ہیں مگر ان میں سے کوئی اس کی صحت یابی کیلئے اپنا کردار ادا نہیں کرتا۔ صحافی سچ نہیں لکھتا۔ استاد موسیٰ کی بجائے فرعون پیدا کرتا ہے۔ سیاست دان اقتدار کیلئے ملک دشمنوں سے گٹھ جوڑ کر لیتا ہے عالم فساد پھیلاتے ہیں انکم ٹیکس والے لاکھوں کیلئے کروڑوںکی ٹیکس چھوٹ دیتے ہیں۔صنعتکار ہوس زر میں مبتلا ہیں۔حکمرانوں کو حکومت کا چسکا ہے۔ دانشور دل کی باتیں کرنے کی بجائے فیشن ایبل باتیں کرتے ہیںاور اس کے ساتھ ساتھ یہ سب لوگ پاکستان کی عیادت بھی کرتے رہتے ہیں ،اس طرح یہ اس کے دکھوں میں اضافہ کر رہے ہیں۔ میں تو انہی دنوں میں ایک تختی لکھوا کرمینار پاکستان پر لگا رہا ہوں !‘‘کونسی تختی؟
چند لفظوں پر مشتمل تختی ...اس پر لکھا ہوگا ’’عیادت کرنا منع ہے۔‘‘شاید یہ تختی لوگوں کو عیادت کے آداب سکھا دے۔