ملک میں جہاں ایک طرف مہنگائی اور کھانےپینے کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے نے عوام کی کمر توڑ دی ہے، وہاں دوسری طرف صنعتوں کی پیداواری لاگت میں اضافے سے ہمارے ایکسپورٹرز کی مقابلاتی سکت ختم ہوگئی ہے۔ بجلی اور گیس کے اونچے غیر مقابلاتی نرخ،بلند شرح سود، ٹیکسوں کی بھرمار، سیلز ٹیکس، ریبٹ کے ریفنڈ میں تاخیر، مہنگے خام مال اور غیر یقینی کاروباری ماحول نے متعدد صنعتوں کو بندش تک پہنچا دیا ہے جس میں ٹیکسٹائل سیکٹر سب سے زیادہ متاثر ہوا ہے اور ہمارے ایکسپورٹرز بھارتی مصنوعات پر عائد اضافی ٹیرف کے باوجود امریکی مارکیٹ میں اپنا شیئر نہیں بڑھاسکے۔
پاکستانی ٹیکسٹائل صنعت کو جن چیلنجز کا سامنا ہے، ان میں بڑھتی ہوئی پیداواری لاگت، کپاس کی پیداوار میں ریکارڈ کمی، خام مال کی امپورٹ پر بھاری ٹیرف، خام مال کی امپورٹ LCs کھولنے میں مشکلات اور حکومتی پالیسیوں کا عدم تسلسل شامل ہے۔ اس صورتحال میں پاکستانی مصنوعات اپنے علاقائی حریفوں چین، ویت نام اور بنگلہ دیش سے مقابلہ نہیں کرسکتیں کیونکہ ان ممالک میں بجلی اور گیس کے نرخ اور بینکوں کے شرح سود کم ہونے کے باعث ان کی پیداواری لاگت ہم سے کم ہے۔ عالمی سروے کے مطابق اس وقت بھارت، چین اور ویت نام ایشیا میں مینوفیکچرنگ میں سستے اور کم لاگت والے ممالک میں سرفہرست ہیں جبکہ پاکستان مینوفیکچرنگ کی لاگت میں مسلسل اضافے کے باعث اس عالمی سروے میںشامل نہیں۔ ٹیکسٹائل سیکٹر کے ایکسپورٹرز کے مطابق پاکستان میں مسئلہ کپاس کی مقدار کا نہیں بلکہ کوالٹی کا ہے، ناقص بیجوں، کپاس میں آلودگی، جعلی ادویات اور ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ (R&D) کے بغیر نہ ہم معیاری کپاس پیدا کرسکتے ہیں اور نہ ہی اس سے کاٹن کی مطلوبہ فی ایکڑ پیداوار حاصل کرسکتے ہیں۔ حکومت نے کپاس کی پیداوار پر وہ توجہ نہیں دی جو اس اہم فصل کو دینا چاہئے تھی اور کپاس کا کاشتکاری رقبہ کم ہوتا گیا جسکےنتیجے میں ہماری کپاس کی پیداوار 13 ملین بیلز سے کم ہوکر 5 ملین بیلز سالانہ پر آگئی ہے اور آج ہمیں کپاس امپورٹ کرنا پڑرہی ہے جس سے ہمارا خام مال مقابلاتی حریفوں کے مقابلے میں مہنگا ہے۔ ملک میں تقریباً 50 اسپننگ ملز، 10 پروسیسنگ ملز اور سینکڑوں ویونگ یونٹس مکمل یا جزوی طور پر بند ہوچکے ہیں، ان میں فیصل آباد کی پاور لومز فیکٹریاں سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں جنکی پیداواری لاگت میں تقریباً 40 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہی حال پاکستان کی اسٹیل انڈسٹری کا ہے، ملک کے 25 فیصد اسٹیل یونٹس بند ہوچکے ہیں اور باقی یونٹس محدود پیداوار دے رہے ہیں۔ کراچی میں امیر علی اسٹیل اور وندر بلوچستان میں صدیق سنز ٹن پلیٹ فیکٹریاں بھی بند کی جاچکی ہیں جسکی بنیادی وجہ پیداواری لاگت میں ناقابل برداشت اضافہ ہے۔ ان فیکٹریوں کی بندش سے ملک میں بینکوں کے ڈیفالٹ، بیروزگاری اور غربت میں اضافہ ہورہا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان کی ایکسپورٹ جی ڈی پی کے 10 فیصد سے کم ہوگئی ہیں جو لمحہ فکریہ ہے کیونکہ اس کا براہ راست تعلق ملک میں نئی ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنے سے ہوتا ہے۔ لیبر فورس سروے کے مطابق پاکستان میں بیروزگاری ریکارڈ 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے۔
قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی میں اسٹیٹ بینک نے ایک بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان میں نان پرفارمنگ قرضوں (NPL) میں 2018-19 میں 23 فیصد اضافہ ہوا تھا جو 623 ارب روپے سے بڑھ کر 768 ارب روپے تک پہنچ گئے۔ ان نادہندگان میں انرجی اور شوگر سیکٹرز سرفہرست ہیں۔ پاکستان بزنس کانفیڈنس انڈیکس گیلپ سروے کے مطابق ملک میں بزنس کانفیڈنس انڈیکس (BCI) میں کمی آئی ہے۔ پیداواری لاگت اور ٹیکسوں کی شرح میں ناقابل برداشت اضافے کے باعث بے شمار ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان سے چلی گئی ہیں جن میں P&G کے علاوہ دنیا کی 5 بڑی فارماسیوٹیکل کمپنیاں آئی سی آئی، بائر، فائزر، نووارٹس، صنوفی اور ایونٹس شامل ہیں۔ حال ہی میں پاکستان کی ٹیکسٹائل کی سب بڑی کمپنی گل احمد نے بھی ملک میں اپنی ایپرل اور گارمنٹس مینوفیکچرنگ ختم کرنے کا اعلان کیا ہے اور ان کمپنیوں کے بند ہونے سے جہاں حکومت کو ٹیکس کی مد میں اربوں روپے کا نقصان ہوگا، وہاں ملک میں بیروزگاری اور غربت میں بھی اضافہ ہوگا۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 10 سال کے دوران بیروزگاری 1.5 فیصد سے بڑھ کر 7 فیصد ہوگئی ہے جبکہ ورلڈ بینک کے مطابق پاکستان میں غربت کی شرح 25 فیصد سے تجاوز کرگئی ہے۔ ملک میں 5.2 ملین سے زائد چھوٹے اور درمیانے درجے کی صنعتیں (SMEs) ہیں جو 30 فیصد لوگوں کو روزگار فراہم کرتی ہیں اور ملکی جی ڈی پی میں ان کا حصہ 40 فیصد ہے۔ SMEs کو ملکی معیشت اور صنعت کی ریڑھ کی ہڈی کہا جاتا ہے جس کا صنعتی شعبہ مسلسل زوال کا شکار ہے۔ بڑے درجے کی صنعتوں (LSM) کی پیداوار میں بھی رواں ماہ 4 فیصد کمی دیکھنے میں آئی ہے۔ امپورٹ میں اضافے اور ایکسپورٹ میں کمی سے ملکی تجارتی خسارہ 12.6 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے جو ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر کو متاثر کررہا ہے۔ امپورٹ پر زیادہ انحصار نے پاکستان کو ٹریڈنگ اسٹیٹ بنادیا ہے حالانکہ قائداعظم نے ایک زرعی اور صنعتی پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ اس صنعتی بحران کا اثر عام لوگوں کی زندگیوں پر پڑ رہا ہے جس سے نمٹنے کیلئے حکومت کو فوری اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔