میں نے حال ہی میں ایک کالم ’’کرکٹ کے جواری‘‘ لکھا جس کا مقصد وزیرِ اعظم، پی سی بی اور میڈیا سمیت سب کو یہ احساس دلانا تھا کہ کرکٹ جیسے حساس اور قومی جذبات سے جڑے کھیل میں جوئے اور جواریوں کی بڑھتی ہوئی موجودگی کے خلاف فوری اور سنجیدہ ایکشن ناگزیر ہے۔ میں نے چاہا کہ یہ مسئلہ محض ایک بحث نہ رہے بلکہ ریاست اور اس کے ادارے اس پر توجہ دیں۔ میرا خیال تھا کہ اس پر کوئی مثبت پیش رفت ہوگی، لیکن اس کے برعکس پی سی بی نے مجھے بیس کروڑ روپے کے دعوے کے ساتھ ایک ہتکِ عزت کا نوٹس بھیج دیا۔ مجھے حیرت ہوئی کہ اُس نے کیوں معاملہ اپنی طرف کھینچ لیا اور یوں لگا جیسے اس ادارہ نے مجھے کٹہرے میں کھڑا کرنے کی کوشش کی ہو، مگر اس نوٹس نے خود اُسی کو سوالات کے کٹہرے میں لاکھڑا کیا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے نوٹس عام طور پر پبلشر، پرنٹر اور ایڈیٹر کو بھی بھیجتے ہیں، لیکن اس بار یہ خصوصی توجہ صرف مجھے یعنی لکھاری کو ہی دی گئی۔ شاید ان کا خیال تھا کہ میں دب کر خاموش ہو جاؤں گا، یا آئندہ اس موضوع پر لکھنے سے گریز کروں گا۔ لیکن میں یہ بات کھل کر کہتا ہوں کہ نہ میرا کسی فرد سے ذاتی کوئی جھگڑا ہے، نہ میں کسی شخصیت کے خلاف مہم چلاتا ہوں۔ میری جنگ ہے تو صرف جوئے کے خلاف اور اس لعنت کے خلاف جس نے نہ صرف کرکٹ کے کھیل کو آلودہ کیا بلکہ ہمارے نوجوانوں کو بھی شدید نقصان پہنچایا، میں اس جدوجہد سے پیچھے ہٹنے والا نہیں۔ الٹا اس نوٹس نے میرے اندر اس برائی کے خلاف لکھنے اور بولنے کی مزید ہمت پیدا کی ہے جس پر اُن کا شکریہ! ادارے نے اپنے نوٹس میں میرے کالم کو ’’گمراہ کن، فریب دہ، جھوٹا اور ہتک آمیز‘‘ قرار دیا اور کہا کہ اس سے ان کی قومی و بین الاقوامی ساکھ متاثر ہوئی۔ نوٹس میں دعویٰ کیا گیا کہ میرے مضمون نے ایک ’’غلط تاثر‘‘ دیا کہ کپتانی، ٹیم کا انتخاب اور اہم کرکٹ فیصلے بیٹنگ کمپنیوں کے دباؤ یا سیاسی اثرات کے تحت کیے جاتے ہیں۔ مزید کہا گیا کہ میرا کالم ’’بدنیتی‘‘ پر مبنی تھا اور اس نے عوامی غصہ بھڑکایا، کھلاڑیوں اور ادارے کے درمیان عدم اعتماد پیدا کیا، اور پاکستان کی عالمی اسپورٹس ساکھ کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔ اس سارے بیانیے کی بنیاد پر مجھ سے مضمون واپس لینے، غیر مشروط معافی مانگنے اور بیس کروڑ روپے کی ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے میں نے اپنے وکیل کے ذریعے ان تمام الزامات کو مسترد کیا ہے۔ ہمارا مؤقف واضح ہے کہ میرا کالم سچائی اور عوامی مفاد پر مبنی تھا، اس میں وہی حقائق شامل تھے جو قابلِ تصدیق ذرائع سے حاصل ہوئے۔ ادارے نے حیرت انگیز طور پر میرے کالم میں ذکر کیے گئے بنیادی نکات کی تردید ہی نہیں کی۔ نہ اس بات کی تردید ہوئی کہ بابر اعظم اور محمد رضوان نے ایک انتہائی اہم شخصیت سے ملاقات کی۔ نہ اس بات پر کوئی جواب آیا کہ ان دونوں نے بیٹنگ کمپنیوں کے خلاف قدم اٹھانے کی درخواست کی۔ نہ اس معاملے کی وضاحت آئی کہ پی ایس ایل کے دوران ایک کھلاڑی نے بیٹنگ کمپنی کے لوگو پر ٹیپ کیوں لگائی۔ نہ یہ بتایا گیا کہ سروگیٹ بیٹنگ کمپنیوں کے خلاف شکایات کے بعد آزادانہ انکوائری ہوئی یا نہیں۔ نہ یہ مانا یا رد کیا گیا کہ بڑے شہروں میں بیٹنگ کے اشتہارات والے کئی بڑے بل بورڈز لگائے گئے اور ایسے اشتہاروں کے خلاف ادارے نے کیا کارروائی کی۔ اور نہ ہی اس بات کی وضاحت آئی کہ پی ایس ایل کی چار فرنچائزز نے کھلے عام متبادل بیٹنگ کمپنیوں کی تشہیر کی تو بورڈ نے اس پر کیا کوئی ایکشن لیا، کسی پر ذمہ داری عائد کی گئی۔ میں نے اپنے جواب میں چند سیدھے سوالات پوچھے ہیں: کیا سروگیٹ کمپنیوں نے پی سی بی یا پی ایس ایل ٹیموں کو اسپانسر نہیں کیا؟ اگر کیا تو یہ اجازت کس نے دی، اور کس بنیاد پر دی؟ کیا کسی کے خلاف کوئی تادیبی کارروائی ہوئی؟ کیا عوام کو کبھی بتایا گیاکہ ایسی کمپنیوں کو پاکستانی کھیل سے جوڑنا کیوں برداشت کیا گیا؟ یہ سب بنیادی سوالات ہیں جن کا جواب مجھے بھی اور عوام کو بھی ملنا چاہیے۔ اس ساری صورتِ حال میں جو چیز مجھے سب سے زیادہ افسردہ کرتی ہے وہ سابق کپتان اور قومی ہیرو راشد لطیف کے بارے میں موصول ہونے والی اطلاعات ہیں۔ راشد لطیف ہمیشہ جوئے کے خلاف آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ اگر واقعی انہیں حکومت یا کسی طاقتور ذریعے سے ہراساں کیا گیا تو یہ انتہائی افسوسناک اور تشویشناک بات ہے۔ ہو سکتا ہے وہ خود اس معاملے پر لب کشائی نہ کریں، مگر یہ وزیرِ اعظم کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اس کی شفاف تحقیقات کرائیں۔ یہ صرف ایک فرد کا مسئلہ نہیں، یہ انصاف اور اصول کا معاملہ ہے۔ ریاست اور حکومت کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ جو لوگ کرکٹ کو جوئے سے پاک رکھنے کی بات کرتے ہیں، وہ تنہا نہیں کھڑے۔ میں یہ واضح کر دوں کہ میری جنگ کسی فرد یا ادارے کے خلاف نہیں بلکہ جوئے اور جواریوں کے خلاف ہے چاہیے وہ کسی بھی ادارہ یا شخصیت کے پیچھے چھپنے کی کوشش کریں۔ اگر سوال اٹھانا جرم ہے تو میں یہ جرم بار بار کروں گا، کیونکہ یہ نہ صرف میری دینی اور معاشرتی ذمہ داری ہے بلکہ کرکٹ قوم کا کھیل ہے، قوم کی امانت ہے۔ میں کسی دھمکی، نوٹس یا ہرجانے کے خوف سے جوئے جیسی لعنت کے خلاف لکھنا یا بات کرنا نہیں چھوڑوں گا۔ کرکٹ اس ملک کا فخر ہے، اور اسے جوئے کی لت اور مفاداتی گروہوں کے ہاتھوں یرغمال نہیں بننے دینا چاہیے۔