گھر کی بھرپور ذمےداریوں کے باوجود ہابڑی اور سرسہ میں قیام کے دوران امّاں جی نے نہ صرف قرآن پاک کی تعلیم کا اہتمام فرمایا بلکہ اپنی بیٹیوں اور قرآن کی تعلیم حاصل کرنے آئی بچیوں کو ’بہشتی زیور‘ کی تعلیمات سے بھی آراستہ کیا۔ قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ اُنھیں خانہ داری کی تربیت بھی دیتیں۔ اِس طرح امّاں جی کا گھر ہمیشہ ایک دینی اور معاشرتی تربیت گاہ کی حیثیت اختیار کیے رہا۔ اُس تربیت گاہ میں جو بچی ایک بار آ جاتی، امّاں جی کے ساتھ اُس کا ماں بیٹی کا رشتہ مستقل اور مستحکم بنیادوں پر قائم ہو جاتا۔ وہ بڑی ہو جاتیں، اُن کی شادیاں ہوتیں، بال بچوں والی ہو جاتیں لیکن اِس رشتے کی پاکیزگی اور نفاست میں کوئی فرق نہ آتا۔ہماری والدہ بڑی حوصلہ مند اور باسلیقہ خاتون تھیں۔ اُنھوں نے محدود وَسائل میں کثیر اولاد کی کفایت شعاری اور عمدگی سے تربیت کی۔ وہ گھریلو اخراجات کم سے کم رکھنے کے لیے سخت جسمانی مشقت کرتیں۔ صبح سویرے تہجد پڑھنےکے بعد چکّی پیسنے بیٹھ جاتیں اور فجر تک پانچ سیر آٹا پیس کر اُٹھتیں۔ یہ دوسری جنگِ عظیم کا دور تھا۔ مہنگائی عروج پر تھی اور گندم بہت مہنگی، چنانچہ والدہ نے تمام بچوں کو جوار اَور باجرے کی روٹی کھانے کا عادی بنا دیا کہ اُن کے نرخ کم ہوتے تھے۔دودھ کی ضرورت پوری کرنے کے لیے گھر میں بکریاں پال رکھی تھیں۔ وہ سوت کات کر افرادِخانہ کے لیے کپڑے تیار کرتیں۔ مجھے آج بھی یاد ہے ہمارے گھر میں صندوق اور ٹرنک کے بجائے گٹھڑیاں ہوا کرتیں۔ سب کو عید کے عید ہی نئے کپڑے اور جوتا دلایا جاتا۔ والدصاحب ’دھوڑی‘ (ایک قسم کا کچا چمڑا) کا جوتا بنوا کر دیتے۔ مہینوں گوشت کھانے کو نہ ملتا۔ مَیں اور بھائی اعجاز حسن جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتے اور گھر کی بکریاں بھی چرانے لے جاتے۔ بڑے بھائی گُل حسن (چار بیٹیوں کی پیدائش کے بعد) پیدا ہوئے، تو والد صاحب نے والدہ کو خوش ہو کر سلائی کی سنگر مشین تحفے میں دی تھی۔ وہ مشین پاکستان بنتے وقت ہمارے ساتھ آئی۔مَیں نے گھر میں دو چیزیں مستقل دیکھیں-ایک سلائی مشین اور دُوسرا اَزاربند بُننے والا لکڑی کا اڈّا جسے مَیں نے کبھی فارغ نہیں دیکھا۔ والدہ یا کوئی بہن فارغ اوقات میں اُن دونوں چیزوں پر کام کرتی پائی جاتیں۔ گھر کے جملہ افراد کا لباس اُسی مشین پر سلتا تھا اور اُسی اڈّے پر بُنے ہوئے ازاربند دوسروں کو تحفتاً بھی دیے جاتے۔ چونکہ ہابڑی گاؤں میں تعلیمِ نسواں کا انتظام نہیں تھا، اِس لیے والدہ گاؤں کی بچیوں کو اَپنے گھر نماز قرآن پڑھنا سکھاتیں اور سینے پرونے کی تربیت بھی دیتیں۔ اِس وجہ سے وہ ’اُستانی جی‘ کے نام سے مشہور تھیں۔ ہماری والدہ بتایا کرتی تھیں کہ اُن کے والدین کے گھر کئی کئی دن کھانا نہیں پکتا تھا۔ جب چھوٹے بھائی کو بھوک لگتی، تو والدہ سے کہتے ’’بوجی! بھوک لگی ہے۔‘‘وہ کہتیں ’’جاؤ مولوی صاحب (ناناجی) کے پاس۔‘‘ ہم دونوں اُن کے پاس جا کر بیٹھ جاتے۔ اُس وقت وہ نماز پڑھ رہے ہوتے، سلام پھیر کر پوچھتے ’’بیٹا! کیا بات ہے؟‘‘ ہم بتاتے کہ بھوک لگی ہے، تو وہ کہتے ’’منہ کھولو‘‘۔ ہم منہ کھولتے، تو وہ منہ میں پھونک مارتے اور ہمارے پیٹ بھر جاتے۔ ہماری والدہ مرحومہ اور ماموں بہت سرخ و سفید رنگت اور اَچھی صحت والے تھے۔ اہلِ محلہ ہمیں دیکھ کر کہا کرتے تھے ’’مولوی صاحب کے ہاں ہفتوں آگ نہیں جلتی مگر اُن کے بچے دیکھو، پٹھانوں کی طرح سرخ و سپید ہیں۔‘‘والدہ مرحومہ اکثر ہمیں اِس قسم کے واقعات سناتیں جن سے ہمیں روحانی طمانیت محسوس ہوتی۔ ہمارے والدین پانچ وقت کے نمازی اور تہجد کے پابند تھے۔ صبح قرآن کی تلاوت اُن کا معمول تھا۔ ذکرِ الٰہی اور تلاوتِ قرآن پاک کی کثرت کے باعث اللّٰہ تعالیٰ نے امّاں جی کی زبان اور اُن کے دم میں شفابخش تاثیر پیدا کر دی تھی۔ وہ جس مریض پر آیاتِ الٰہی پڑھ کر دم کرتیں، وہ اَللّٰہ کے فضل سے شفایاب ہو جاتا۔ بعض بیماریوں میں اُن کا یہ عمل تریاق کی حیثیت رکھتا تھا۔ مثلاً کن پھیڑ، بچوں کا نمونیا، موذی اور زہریلے جانوروں کا کاٹ لینا اور دَردِسر وغیرہ۔ مریض بلکتے اور تڑپتے آتے اور ہنستے کھیلتے جاتے۔ مارگزیدہ مریض آتا، تو اَمّاں جی اُسے نیم کے پتے چبواتیں، ساتھ ساتھ دم کرتی جاتیں۔ جب تک زہر کا اثر جسم میں ہوتا، نیم کے پتے مریض کو میٹھے یا پھیکے محسوس ہوتے، لہٰذا دَم کا سلسلہ جاری رہتا، یہاں تک کہ مریض نیم کی کڑواہٹ محسوس کرنے لگتا۔ یہ اِس بات کی علامت ہوتی کہ جسم سے زہر کا اثر زائل ہو چکا۔ یہ سب قرآن پاک کی برکت اور اُس کا اعجاز تھا۔ دین کے ساتھ گہرے روابط نے اُن کے اندر رُوحانی قوت پیدا کر دی تھی۔امّاں جی نے بتایا کہ ہابڑی میں ایک مرتبہ ایسی بیماری وبا کی صورت اختیار کر گئی جس میں مریض پہلے بخار میں مبتلا ہوتا، پھر آہستہ آہستہ بخار تیزی اور شدت اختیار کرتا اور مریض بےسُدھ ہو جاتا۔ اِس بیماری نے ہمارے گھر پر بھی حملہ کر دیا۔ ایک ایک کر کے سارے بچے اور اَبّاجی لپیٹ میں آ گئے۔ گھر میں صرف وہ تنہا تندرست تھیں جو سب بیماروں کی دیکھ بھال کرنے لگیں۔ وہ ساری ساری رات جاگتیں اور بچوں کو باری باری دیکھتیں۔ اِسی پریشانی میں تقریباً ایک ہفتہ گزر گیا۔ ایک رات جو اُن کی آنکھ لگی، تو کیا دیکھتی ہیں کہ ایک سفید ریش بزرگ ایک ایک مریض کے سرہانے جا کر کچھ پڑھ کر دم کر رہے ہیں۔ والدہ نے اُن سے دریافت کیا ’’آپ کون ہیں؟‘‘ جواب میں اُنھوں نے فرمایا ’’کیا تم ہمیں نہیں جانتیں؟‘‘ ساتھ ہی ہاتھ سے اشارہ کر کے بتایا کہ ہم تمہارے قریب سامنے ہی رہتے ہیں۔آنکھ کھلی تو کیا دیکھتی ہیں کہ سب مریض اُٹھ بیٹھے ہیں۔ کوئی پانی مانگ رہا، تو کوئی روٹی کا مطالبہ کر رہا ہے۔ یہ اِس بات کی علامت تھی کہ وہ بیماری سے نجات پا چکے۔ والدہ نے اللّٰہ تعالیٰ کے اِس احسان پر سجدۂ شکر ادا کیا۔ دراصل ہابڑی میں میراںجی نامی ایک بزرگ مدفون تھے جن کا مزار علاقے میں مرجعِ خلائق تھا۔ وہ ہمارے گھر کے قریب ہی واقع تھا۔