مڈل ایسٹ ایشو ایک مرتبہ پھر عالمی خبروں میں نمایاں ہے یو این سیکورٹی کونسل نے اپنے پندرہ میں سے تیرہ اراکین کی حمایت سے ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے کی منظوری دے دی ہے اور یہ امریکا کی بڑی سفارتی کامیابی ہے، چائنہ و رشیا نےاگرچہ اپنے اعتراضات اٹھاتے ہوئے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا لیکن امریکی قرارداد کی مخالفت بھی نہیں کی کیونکہ اگر وہ چاہتے تو اسے ویٹو کرسکتے تھے۔ ٹرمپ پلان میں دو ریاستی حل، غزہ کی مستقل حکمرانی اور عالمی استحکام فورس کے دائرۂ کار سے متعلق ابہام کی جو شکایات چائنہ و رشیا کو ہیں اسی نوع کی شکایات بالخصوص دو ریاستی حل کے حوالے سے پاکستانی حکومت بھی اندرون ملک اپنی رائے عامہ کے سامنے بیان کرتی رہتی ہے بلکہ ایک موقع پر تو پاکستانی فارن منسٹر نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ ٹرمپ کا موجودہ غزہ پلان تو ٹرمپ نیتن یاہو ملاقات کے بعد وہ رہا ہی نہیں جسکی ہم نے حمایت کی تھی اگرچہ اس سلسلے میں کی گئی تبدیلیوں کی انہوں نے نشاندہی نہیں کی ۔ بہرحال یہ امر خوش کن ہے کہ ہماری حکومت کو اندرونِ خانہ جو بھی تحفظات ہیں، بین الاقوامی برادری کے سامنے یو این سکیورٹی کونسل میں اس نے اپنا ووٹ امریکی قرارداد کے حق میں دیا ہےبلکہ سچائی تو یہ ہے کہ سکیورٹی کونسل کا یہ سارا پراسس بشمول پاکستان، عرب اسلامک اقوام کی خواہش پر کیا گیا ہے تاکہ امریکی غزہ پیس پلان کو عالمی قانونی و اخلاقی چھتری مہیا کی جاسکے۔ بشمول فرانس، برطانیہ اور یورپی یونین عالمی سطح پر اس قرارداد کا وسیع پیمانے پر خیرمقدم کیا گیا ہے سوائے حماس کے، ویسٹ بنک میں قائم فلسطینی اتھارٹی اور اسکے صدر ابوماذن محمود عباس نے بھی اس کی حمایت کی ہے، امریکی پریذیڈنٹ ٹرمپ نے یو این سکیورٹی کونسل سے اپنے امن منصوبے کی منظوری کو تاریخی لمحہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ میں غزہ امن کونسل کی صدارت خود کروں گا، یواین سیکرٹری جنرل نے بھی اس کی منظوری کو خطے میں امن کیلئے خوش آئند قراردیا۔ حماس کا اعتراض ہے کہ اس کا فائدہ اسرائیل کو پہنچے گا کیونکہ اسرائیل کا بنیادی مقصد ہی حماس کو غیر مسلح کرنا ہے۔اس امر میں کوئی اشتباہ نہیں کہ اس وقت امریکا کو مڈل ایسٹ میں حماس کا جہادی ایجنڈا کسی صورت قبول نہیں اور اسے ختم کرنے کیلئے وہ کسی بھی حد تک جانے کیلئے تیار ہے غزہ میں اسرائیل کے ہاتھوں جتنی بھی تباہی ہوئی یہ امریکی اشیرباد کے بغیر ممکن نہ تھی۔ اب مسئلہ یہ آرہا ہے کہ حماس کے گوریلوں کو عام فلسطینی عوام سے الگ کرتے ہوئے ان کا خاتمہ کیسے کیاجائے؟ حماس کی تمام تر جنگی اسٹریٹجی عوامی شیلٹر کے نیچے تھی انکے ٹھکانے اور اڈے یاتو پرہجوم عوامی مقامات کے اندر ہیں یا ہاسپٹلز، مذہبی مقامات اور تعلیمی اداروںکےنیچے موجود تہہ خانوںمیں۔ اسرائیلی فورسز جنگجوؤں کے تعاقب میں جب حملہ آور ہوتیں تو چاہے جو بھی احتیاطی تدابیر کی جاتیں عوامی ہلاکتیں ناگزیر تھیں جس سے پوری دنیا کی رائے عامہ متاثر ہوتی تھی۔ درویش کا ہمیشہ سے یہ ماننا ہے کہ کسی بھی قوم کے فسادیوں جنگجوؤں کی صفائی یا ٹھکائی ان کے اپنے لوگوں کو کرنی چاہیے اگر دوسری قوم کے لوگ یہ کام کریں تو مذہبی، نسلی اور قومیتی تعصبات بھڑکیں گے۔ہمارے جو لوگ ٹرمپ کے غزہ پیس پلان میں کیڑے نکالتےہوئے اپنی حکومت کی مخالفت پر کمربستہ ہیں یا عوامی سطح پر حکومت کے خلاف منافرت پھیلانا چاہتے ہیں وہ اگر ہوش کے ناخن لیں اور سوچیں کہ غزہ میں حماس کو غیر مسلح کیے بغیر خطے میں امن کے قیام کا، کیا کوئی دوسرا متبادل ہے؟ کیا امریکا سے لڑ کر مڈل ایسٹ میں کوئی اپنی شرائط منواسکتا ہے؟؟ انہیں سوچنا چاہیے کہ ایک وقت میں یہی ٹرمپ تھے جو اس نوع کی تجاویز پر غور کررہے تھے کہ اگر حماس اپنا جہادی ایجنڈا نہیں چھوڑتی تو کیوں نہ حماس سمیت غزہ کی دو ملین سے زائد آبادی کی یہاں سے نقل مکانی کرواتے ہوئے انہیں ہمسایہ اسلامک عرب ممالک مصر اور جارڈن میں بسادیا جائے اور غزہ کو عالمی تجارتی سیاحتی مقام میں بدل دیا جائے۔ اس پس منظر میں اسلامک عرب ممالک کی ذمہ دار قیادتوں نے امریکی پریذیڈنٹ کو موجودہ پیس پلان پر قائل کیا ہے یا مشترکہ پوائنٹس پر متفق ہوئے ہیں۔ یوں ان دنوں خطے میں مصر، جارڈن اور سیریا کے ساتھ مل کر نئی ہل چل ہورہی ہے، ہمارے آرمی چیف بھی وہاں گئے، جارڈن کے شاہ عبداللہ دوئم بھی پاکستان تشریف لائے، سیریا کے پریذیڈنٹ بھی وائٹ ہاؤس پہنچے۔سعودی کراؤن پرنس محمد بن سلمان کے موجودہ امریکی دورے کو بھی اسی پس منظرمیں ملاحظہ کیاجاسکتا ہے جن کے ملک کو امریکا اتنی اہمیت دیتا ہے کہ اسے عرب اسلامک ورلڈ کا گیٹ وے قرار دیتے ہوئےامریکی پریذیڈنٹ نے اپنے پہلے غیر ملکی دورے کا آغاز ریاض سے کیا تھا اور آج جب محمد بن سلمان وائٹ ہاؤس پہنچے تو ان کا کسی سپر پاور کے حکمران جیسا پرتپاک استقبال کیا گیا ۔ٹرمپ کا کہنا تھا کہ سعودی کراؤن پرنس ہمارے لیے انتہائی قابلِ احترام شخصیت ہیں وہ ہمارے عظیم شراکت دار ہیں ہم انکے ساتھ دفاعی معاہدے کے بھی بہت قریب پہنچ چکے ہیں انہیں جدید ترین ٹیکنالوجی اور جدید ترین طیارے F35بھی مہیا کرنے جارہے ہیں سعودی عرب امریکا میں ایک کھرب ڈالر کی انویسٹمنٹ کرنے آرہا ہے اور یہ امریکی قوم کیلئے قابلِ فخر سرمایہ کاری ہے ایران سے جوہری معاہدے پر بھی ہم سعودیہ سے مل کر کام کررہے ہیں۔ا یم بی ایس کے ساتھ ابراہیم اکارڈ پر بھی بات ہوئی ہے اور وہ اس سلسلے میں اچھے جذبات رکھتے ہیں۔ شام سے پابندیاں ہٹوانے میں بھی انہوں نے کردار ادا کیا ہے اندرونِ ملک ہیومن رائٹس کے حوالے سے بھی سعودی کراؤن پرنس کا کردار شاندار رہا ہے۔ جواب میں ایم بی ایس نے امریکی پریذیڈنٹ ٹرمپ کی طرف سے دنیا میں قیامِ امن کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کو سراہتے ہوئے کہا کہ میری اس حوالے سے اچھی تمنا ئیں ہیں لیکن اس کے ساتھ ہی ہم خطے میں دو ریاستی حل کے لیے کوئی واضح راستہ چاہتے ہیں۔