ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ۔ پہلے بھی کئی کرم فرما یہ شکوہ کرچکے ہیں کہ جو لوگ ماضی میں آپکو غدار قرار دیتے رہے ، آپکی گرفتاری کا مطالبہ کرتے رہے وقت بدلنے کے بعد جب اُن پر غداری کے الزام لگنا شروع ہوئے اور اُنہیں گرفتار کیا گیا تو آپ اُن کیساتھ کھڑے کیوں ہو گئے ؟ میرا ہمیشہ سے یہ موقف رہا ہے کہ صحافیوں اور سیاسی جماعتوں کو ہمیشہ سے ایک مخصوص ایجنڈے کے تحت آپس میں لڑایا جاتا ہے۔ماضی میں جن طاقتور لوگوں نے مجھ پر جھوٹے مقدمات بنوائے اور پابندیاں لگوائیں یہی لوگ اگر آج کسی صحافی یا سیاستدان پر جھوٹا مقدمہ بنائیں اور پابندی لگائیں تو مجھے اُنکے ہاتھوں میں چابی والا کھلونا نہیں بننا چاہئے اور پاکستان میں دم توڑتی صحافت کو بچانے کی پوری کوشش کرنی چاہئے۔ آج کے دور میں مجھ ناچیز کا یہ نظریہ صحافت کافی آؤٹ آف فیشن ہے۔ کچھ لوگ اسے اولڈ اسکول آف جرنلزم کہتے ہیں جس میں لاٹھی گولی کی سرکار کیخلاف مزاحمت کرنے والے غدار اور ملک دشمن قرار پاتے ہیں۔ میں یہ واضح کرناچاہتا ہوں کہ میری ناچیز رائے میں نیوٹرل صحافت کوئی صحافت نہیں ہوتی۔ صحافی سچ اور جھوٹ کے درمیان نیوٹرل نہیں ہو سکتا ۔ میں صحافت میں معروضیت یا Objectivity کا قائل ہوں ۔ صحافی کو کسی سیاسی جماعت یا ریاستی ادارے کا نہیں بلکہ صرف سچائی کا ترجمان بننا چاہئے اسی لئے پاکستان جیسے ملک میں معروضی صحافت کرنے والوں سے ہر حکومت ناراض رہتی ہے ۔ دو دن قبل اسلام آباد کی ایک پرائیویٹ یونیورسٹی میں میری حال ہی میں شائع ہونیوالی کتاب’’رو داد ستم ‘‘کے ایک باب’’پاگل فلسفی کا ناچ ‘‘پر ایک مباحثے کا اہتمام تھا ۔عام طور پر نئی کتابوں کی تقریب رونمائی کا اہتمام ہوتا ہے لیکن اس یونیورسٹی کےاساتذہ اور طلبہ نے روداد ستم کے ایک باب پرایسے مباحثے کا اہتمام کیا جس میں مصنف کو نہ تو اسٹیج پر بیٹھنا تھا اور نہ ہی کچھ کہنا تھا بلکہ سامعین کے درمیان بیٹھ کر اپنے بارے میں ایک بحث سننی تھی۔’’پاگل فلسفی کا ناچ ‘‘ ایک غیر مطبوعہ تحریر ہے جس میں صحافیوں کو درپیش پابندیوں کا ماضی اور حال تفصیل سے بیان کیا گیا ہے۔دو طلبہ نے میرے خلاف اور دو نے میرے حق میں تقریر کی ۔ میرے خلاف پیش کی جانے والی چارج شیٹ کا اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ میں ہر حکومت پر تنقید اور ہر اپوزیشن کی حمایت کرتا ہوں اور جن صحافیوں نے عمران خان کے دور حکومت میں مجھے غدار قرار دیا جب شہباز شریف کی حکومت نے اُنہیں گرفتار کیا تو میں نے اُنکی رہائی کا مطالبہ کرکے اخلاقی دیوالیہ پن کا مظاہرہ کیا ۔ ایک صاحب جو عمران خان کے دور میں مجھ پر لگنے والی پابندی کو ختم نہ کرنے کے راستے کی رکاوٹ بنے رہے حکومت بدلنے پر بیرون ملک بھاگ گئے میری کتاب میں ان صاحب پر بننے والے مقدمات کی مذمت کو میرے خلاف ایک الزام بنا دیا گیا۔ اس چارج شیٹ کے جواب میں ایک طالب علم نے کہا کہ حامد میر ایک پاگل فلسفی تو نہیں لیکن ایک ایسا دیوانہ صحافی ہے جو اپنے استادوں شورش کاشمیری اور حسین نقی کی طرح اپنے دشمنوں پر ہونے والے ظلم کی بھی مذمت کر ڈالتا ہے ۔ یہ مباحثہ ایک خالص تعلیمی سرگرمی تھی جسکی تفصیل میں جانا مناسب نہیں کیونکہ مباحثے کے دوران’’روداد ستم ‘‘پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا جسے سامعین نےمسترد کر دیا ۔ اس مباحثے سے اگلے ہی روز مجھے پتہ چلا کہ ایک نوجوان صحافی سہراب برکت کو اسلام آباد ایئر پورٹ سے گرفتارکر لیا گیا ہے ۔ میں سہراب برکت کو ذاتی طور پر نہیں جانتا ۔ صرف اتنا پتہ چلا کہ اس نوجوان کا تعلق آزاد کشمیر سے ہے۔ مختلف ٹی وی چینلز پر کام کرتا رہا ہے ۔
چند سال سے ایک ڈیجیٹل چینل سے وابستہ تھا اور موسمیاتی تبدیلی پر ایم فل کر رہا ہے ۔ کچھ عرصہ قبل اس نے باکو میںموسمیاتی تبدیلی پر ہونیوالی ایک کانفرنس میں شرکت بھی کی تھی ۔ سہراب برکت کو نومبر کے دوسرے ہفتے میں برازیل میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک کلائمیٹ کا نفرنس میں شرکت کی دعوت دی گئی۔ انہوں نے 14 نومبر کو برازیل روانہ ہونا تھا لیکن انہیں پیغام بھیجا گیا کہ آپ بیرون ملک سفر نہیں کر سکتے ۔ سہراب برکت نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک درخواست دائر کی اور مطالبہ کیا کہ اگر اُن کیخلاف کوئی مقدمہ ہے تو اسکی تفصیل بتائی جائے اوراگر کوئی مقدمہ نہیں تو انہیں برازیل سفر کی اجازت دی جائے ۔ 14 نومبر تک ایف آئی اے نے عدالت میں جواب جمع نہیں کرایا تو سہراب برکت نے اپنی فلائٹ 17 نومبر کی کرائی۔ 17 نومبر بھی گزر گیا ۔ سہراب نے کانفرنس کے منتظمین کو بتایا کہ انہیں سفر کی اجازت نہیں مل رہی ۔ منتظمین نے انہیں کہا کہ کانفرنس 21 نومبر کو ختم ہو جائے گی لیکن اگر وہ کانفرنس ختم ہونے کے بعد 30 نومبر سے پہلے آکر اپنا تحقیقی مقالہ جمع کروا دیں تو انہیں سرٹیفکیٹ جاری کر دیا جائے گا ۔ موسمیاتی تبدیلی پر ایم فل کرنیوالے کسی طالب علم کیلئے اقوام متحدہ کے سرٹیفکیٹ کی بہت اہمیت ہے ۔24 نومبر کو ایف آئی اے نے عدالت کو بتایا کہ سہراب کسی مقدمے میں مطلوب نہیں لہٰذا اسی دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے انہیں بیرون ملک سفر کی اجازت دیدی۔ اس رات جب سہراب برکت بیرون ملک روانگی کیلئے اسلام آباد ایئر پورٹ پر پہنچے تو ایف آئی اے نے انہیں گرفتار کر لیا۔ایف آئی اے نے نہ صرف اپنے ڈی جی کے عدالت میں دیئے گئے بیان بلکہ عدالتی حکم کی بھی دھجیاں اڑا دیں ۔ جب میں نے سہراب برکت کی گرفتاری کو توہین عدالت قرار دیا تو سوشل میڈیا پر کچھ ایسے کرائے کے دانشور میرے پیچھے پڑ گئے جو صحافت کو سیڑھی بنا کر سرکاری عہدوں کے حصول کیلئے سرگرم رہتے ہیں ۔ کچھ پرانے دوستوں اور سینئر صحافیوں نے ایک دفعہ پھر یہ شکوہ بھی کیا کہ سہراب برکت جس ڈیجیٹل چینل سے وابستہ ہے یہ چینل ایک سیاسی جماعت کا ترجمان ہے اور اس چینل نے 2019 سے 2022 تک کئی مرتبہ میری گرفتاری کیلئے مہم چلائی لہٰذا مجھے سہراب برکت کے معاملے پر خاموش رہنا چاہیے کیونکہ وہ صحافی نہیں بلکہ ایک سیاسی کارکن ہے ۔ سہراب کا اصل قصور اس چینل سے وابستگی نہیں بلکہ آزادکشمیر میں چلنے والی حالیہ تحریک کی حمایت ہے۔ چلیں مان لیا کہ وہ ایک سیاسی کارکن ہے لیکن اگر اُسے موسمیاتی تبدیلی پر اقوام متحدہ کی ایک عالمی کانفرنس میں بلایا گیا ہے تو اسے غیر قانونی طریقے سے گرفتار کر لینا کہاں کی ملک دوستی ہے؟ سہراب برکت کے چینل نے مجھ پر جو الزامات لگائے تھے اُنکے پیچھے وہی لوگ تھے جو آج بھی سوشل میڈیا پر اپنے ترجمانوں کے ذریعہ میرے خلاف جھوٹ بولتے رہتے ہیں ۔ عمران خان کے دور میں پنجاب حکومت کے وزیر اطلاعات نے میرے اور میرے والدمرحوم کیخلاف جو جھوٹ بولے اُسکی ذمہ داری میں تحریک انصاف پر کیسے ڈال دوں ؟ وہ صاحب حکومت بدلنے کے بعد اپنے اصل آقاؤں کے حکم پر تحریک انصاف چھوڑ کر استحکام پاکستان پارٹی میں شامل ہو گئے۔اب پنجاب حکومت کی موجودہ وزیر اطلاعات بھی مجھ ناچیز کے بارے میں وہی زبان استعمال کرتی ہیں جو خان صاحب کے یہ وزیر اطلاعات کرتےتھے ۔ عرض صرف اتنا کرنا ہے کہ سہراب برکت جیسے نوجوانوں کے بینک اکاؤنٹ منجمد کرنا ، عدالتی حکم کیخلاف انہیں گرفتار کرنا اور پھر کسی جھوٹے مقدمے میں سزا دلوانا کسی ادارے یا حکومت کی طاقت نہیں بلکہ کمزوری اور خوف کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اس قسم کے اوچھے ہتھکنڈوں کی حمایت کرنیوالے اپنے آپ کو بھلے بڑا عقل مند اور محب وطن سمجھتے رہیں لیکن ہم جیسے پاگل اور آؤٹ آف فیشن صحافی ان ہتھکنڈوں کی کبھی حمایت نہیں کر سکتے۔ دشمنوں کو معاف کیا جا سکتا ہے لیکن دوست بن کر صحافت کی پیٹھ میں چھرا گھونپنے والوں کو معاف نہیں کیا جا سکتا۔