امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ دنوں تیسری دنیا کے تمام ممالک سے امیگریشن کو مستقل طور پر روکنے اور ’’ریورس مائیگریشن‘‘ کی پالیسی اپنانے کا اعلان کیا۔ یہ اعلان واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے قریب ہونے والے فائرنگ کے اس واقعہ کے فوری بعد کیا گیا جسکے نتیجے میں نیشنل گارڈ کی ایک خاتون اہلکار ہلاک اور دوسرا اہلکار شدید زخمی ہوگیا۔ حملے میں ملوث افغانی 29 سالہ رحمان اللہ لکنوال ستمبر 2021 میں ’’ری سیٹلمنٹ پروگرام‘‘ کے تحت افغانستان سے امریکہ منتقل ہوا تھا اور بعد ازاں بائیڈن دور میں اس کی امریکہ میں قیام میں توسیع کردی گئی تھی۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس حملے کو دہشت گردی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ وہ غیر ملکیوں کو امریکہ سے نکالنے کیلئے سخت اقدامات کریں گے۔ اپنے ٹروتھ سوشل پلیٹ فارم پر ٹرمپ نے افغانستان کو ’’جہنم‘‘ قرار دیا اور ایک تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا کہ ’’یہ افغانستان سے آنے والا ہوائی جہاز ہے جس میں سوار سینکڑوں افغانی امریکہ میں بغیر جانچ پڑتال داخل ہوئے، بائیڈن دور میں افغانستان سے آنے والے ہر فرد کی دوبارہ سخت جانچ پڑتال کی جائے گی اور صرف ’’ریورس امیگریشن‘‘ ہی اس صورتحال کا مکمل علاج ہے۔‘‘ فائرنگ کے واقعہ کے بعد امریکہ نے افغان شہریوں سے متعلق تمام امیگریشن درخواستوں پر کارروائی معطل کردی جس سے وہ افغان باشندے بھی متاثر ہوں گے جو سیاسی پناہ یا گرین کارڈ کے ذریعے امریکہ میں قیام کی کوشش کررہے تھے۔ یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد سینکڑوں افغان شہریوں کو امریکی فوجی طیاروں کے ذریعے امریکہ منتقل کیا گیا تھا جن میں بیشتر وہ افغانی تھے جو امریکی افواج کیلئے کام کرتے تھے اور رحمان اللہ لکنوال بھی انہی افغانیوں میں شامل تھا۔ واضح رہے کہ تارکین وطن کو ملک بدر کرنا اور امیگریشن قوانین سخت بنانا ڈونلڈ ٹرمپ کی انتخابی مہم کا بنیادی حصہ رہا اور حالیہ واقعہ نے ٹرمپ کو تیسری دنیا سے امیگریشن روکنے کا نیا جواز فراہم کردیا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر برسراقتدار آنے کے بعد 12 ممالک بشمول افغانستان اور ایران کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے کی پابندی عائد کرنے کا حکم نامہ بھی جاری کرچکے ہیں۔ یو ایس امیگریشن سروسز کے ڈائریکٹر جوزف ایڈلو کے مطابق ان 12 ممالک کے شہریوں کو جاری کئے گئے تمام گرین کارڈز کی سخت جانچ پڑتال کے احکامات بھی دیئے جاچکے ہیں تاکہ امریکہ کو دہشت گردی کے خطرات سے محفوظ رکھا جائے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی حالیہ پوسٹس اس جانب اشارہ کرتی ہیں کہ عنقریب امریکہ میں غیر ملکیوں کیخلاف بڑا کریک ڈاؤن متوقع ہے جو ایشیا، افریقہ، لاطینی امریکہ اور کیریبین سے تعلق رکھنے والے لاکھوں تارکین وطن کو متاثر کرے گا۔
افغانستان میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد عالمی سطح پر دہشت گردی کے بڑھتے واقعات نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر کیلئے ایک چیلنج بن چکے ہیں۔ افغانستان دہشت گرد نیٹ ورک کا مرکز بن چکا ہے اور TTP، BLA، القاعدہ، جیش العدل اور دیگر دہشت گرد نیٹ ورک افغانستان میں موجود ہیں۔ پاکستان شروع دن سے ہی طالبان پر یہ الزام لگاتا آیا ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات کا تعلق TTP اور BLA سے ہے، طالبان حکومت بھارت کی پراکسی کا کردار ادا کررہی ہے اور ان دہشت گردوں کو پناہ گاہیں فراہم کررہی ہے مگر کسی نے اس پر توجہ نہیں دی لیکن امریکی حملے کے بعد یہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے۔ دہشت گردی کے ایک اور واقعہ میں ایک ہفتے کے دوران افغان سرحد سے پڑوسی ملک تاجکستان میں کئے گئے دو حملوں میں 5 چینی باشندے ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے۔ اسی دوران ابھی امریکی عوام، افغان شدت پسند کے ہاتھوں وائٹ ہاؤس کے قریب دہشت گردی کے واقعہ میں خاتون اہلکار کی ہلاکت کے صدمے سے نکل بھی نہ پائے تھے کہ امریکی ریاست ٹیکساس میں سیکورٹی اداروں نے ایک اور افغان باشندے داؤد الوک زئی کو بم بنانے کا دعویٰ کرنے اور فورٹ ورتھ شہر کو نشانہ بنانے کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ ان دونوں واقعات کے بعد امریکی سیکورٹی اداروں نے افغان باشندوں کی کڑی نگرانی شروع کردی ہے اور آنے والے دنوں میں افغانیوں کیلئے امریکہ کی زمین تنگ ہوجائے گی۔ پاکستان نے کئی دہائیوں تک 40 لاکھ سے زائد افغان پناہ گزینوں کی مہمان نوازی کی جس کا صلہ افغانیوں نے ہمیں دہشت گردی اور ہمارے فوجی جوانوں کی شہادت کی صورت میں دیا۔ رحمان اللہ لکنوال اور داؤد الوک زئی جیسے سینکڑوں افغانیوں کو اینٹی طالبان سمجھ کر امریکہ لاکر بسایا گیا لیکن وہ پرو طالبان اور طالبان کے زیر اثر نکلے اور انہوں نے احسان فراموشی کا مظاہرہ کیا۔ پاکستان میں افغانستان سے ہونے والی متواتر دہشت گردی اور امریکہ اور تاجکستان میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات نے دنیا بھر میں افغانیوں کی موجودگی کو داغدار اور ان پر ناپسندیدگی کا لیبل لگادیا ہے۔ ان واقعات کے باعث مستقبل قریب میں امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک میں افغانیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں اور کریک ڈاؤن کا امکان ہے۔ افغانستان سے پیدا ہونے والے خطرات کی سنگینی اور طالبان حکومت کا غیر لچک دار رویہ نہ صرف پاکستان بلکہ پورے خطے کے امن و استحکام کیلئے خطرہ بن گیا ہے۔ اگر عالمی برادری نے اس مسئلے کا مشترکہ اور بروقت حل تلاش نہ کیا تو وہ وقت دور نہیں جب افغانستان، جسے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جہنم قرار دیا ہے، کی بھڑکتی آگ خطے اور پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لےلے گی۔