قومی سیاسی جماعتیں ناکام۔کیسی کیسی فلک بوس قیادتیں زمیں بوس ہوتی جا رہی ہیں بلدیاتی ادارے نامراد ہیں مگر بے اختیار کر دیے گئے ہیں اپنی کارکردگی سے غفلت کیلئے یہ بہانا کافی ہو گیا ہے۔عالی شان شاپنگ مراکز کے باہر اجل آپ کی گھات میں رہتی ہے۔اس ہفتے نیپا چورنگی مقتل بن گئی ۔نیپا جہاںکراچی سمیت ملک بھر کے وفاقی '،صوبائی، بلدیاتی افسروں کو انسان کی خدمت اور اللہ تعالی کے نائب حضرت انسان کے وقار کو برقرار رکھنے کی کئی کئی ماہ تربیت دی جاتی ہے۔اس سے چند قدم کے فاصلے پر روزانہ کروڑوں روپے کمانے والے شاپنگ مال کو یہ توفیق نہ ہوئی کہ اپنے معزز گاہکوں، ان کے بچوں کے تحفظ کیلئے ایک کھلے مین ہول کو ایک ڈھکن لگا دے۔ جس کونسلر کی ذمہ داری تھی وہ بے خبر رہا۔ متعلقہ یو سی چیئرمین بھی بے حس رہا ' ٹاؤن چیئرمین بھی یہ فریضہ انجام نہ دے سکے۔شہر کے میئر کو بھی اس سکیورٹی رسک سےمطلع نہیں کیا گیا۔ان کا اسٹاف انکے کان ناک زبان ہوتاہے کیا انہوںنے بھی نہیں بتایا۔کیا اس کیلئے بھی 1973 کے آئین میں ترمیم کرنی پڑے گی۔ کیا اس کیلئے بھی کسی کو تاحیات استثنیٰ دینا پڑے گا ۔نیپا کے در و دیوار گریہ کناں ہیں۔ نیپا چورنگی سر پیٹ رہی ہے ۔نیپا پل ماتم کر رہا ہے ۔ایک غنچہ بن کھلے مرجھا گیا۔کیا نیپا کو اب سرکاری افسروں کے ساتھ ساتھ سیٹھوں، رئیسوں، مالکوں ،سی ای اوز ،تاجروں کو بھی تربیت دینا پڑئیگی۔ شاپنگ سینٹروں کے میںمنیجروں کو بھی سکھانا پڑے گا کہ جو بھی صارف آپ کے پاس خریداری کیلئے آ رہا ہے۔ اس کیلئے سازگار ماحول اور سینٹر کے آس پاس کئی گز تک تحفظ بھی شاپنگ سنٹرکی ذمہ داری ہے ۔محلے کی وہ دکانیں یاد آتی ہیں جہاں مالک خود تجوری پہ بیٹھتا تھا اب اسے کاؤنٹر کہا جاتا ہے ۔یہ سیٹھ بھی تھا سیلز پرسن بھی اور محلے کا غم خوار بھی۔ وہ ابراہیم کو بھی پہچانتا تھا اور تنویر کو بھی۔ وہ بچوں کو چونگا بھی دیتا تھا ۔دادا دادی نانا نانی کو عقیدت سے سلام بھی کرتا تھا۔ سامان زیادہ بھاری ہو جائے تو گھر تک بھی پہنچا دیتا تھا۔ کبھی تھیلے یا لفافے کے الگ پیسے نہیں لیتا تھا اور نہ گھر تک پہنچانے کا بل پیش کرتا تھا۔اب یہ کریانہ اسٹور آہستہ آہستہ بند ہورہے ہیں ۔سکیورٹی کے نام پر کروڑوں روپے خرچ کیے جا رہے ہیں۔ شارٹ سرکٹ کیمروں سے شہروں کو محفوظ بنایا جا رہا ہے۔ رینجرز کو شہروں میں برسوں سے ڈیوٹی دی جا رہی ہے ۔کیا شارٹ سرکٹ کیمروں کی آنکھ کھلے مین ہول نہیں دیکھ پاتی ۔شہر بیہودگی سے کمرشل ہوتے جا رہے ہیں۔ ہم گلشن اقبال کے جس بلاک میں رہتے ہیں۔ وہاں پہلے ساری عمارتیں رہائشی تھیں ۔پرسکون پرامن ۔گٹر نہیں ابلتے تھے۔ سڑکیں بہت شریف تھیں ۔فٹ پاتھ بہت سادہ ۔پھر ایسی غضب کی کمرشلائزیشن شروع ہوئی ۔مکان مسمار ہوتے گئے دکانیں کھلتی گئیں۔ کسی محکمے نے ہم محلے والوں سے نہیں پوچھا ۔اب یہاں ہر برانڈ موجود ہے ۔ملکی غیر ملکی ۔سڑک اور گلی پر ہر قسم کی گاڑی ٹرک ا ٓرہے ہیں ۔کمپنیوں کے بڑے بڑے ٹریلر نیا مال پہنچانے آ رہے ہیں۔ کروڑوں کی خرید و فروخت ہو رہی ہے ۔گٹر ابلتے ہیں ۔سڑکیں ادھڑتی ہیں۔ گرد اڑتی ہے ۔کیچڑ اچھلتا ہے۔ اقتصادیات کی ساری عالمی اصطلاحات اور تراکیب زیر استعمال ہیں۔ فیکٹری آؤٹ لیٹ، فرنچائز 'کھانے پینے کے بین الاقوامی نام لیکن گٹر کا بہاؤ نہیں روکا جاتا ۔فٹ پاتھوں پر موٹر سائیکلوں کی پارکنگ ہے۔ گاڑیاں کھڑی ہیں۔ شاپنگ کیلئے آنے والی بیٹیاں مائیں بہنیں کیچڑ سے بھری سڑک پر چلنے پر مجبور ہیں ۔بچوں کو بھی انہی پرخار راستوں پر چلایا جاتا ہے۔ ٹریفک کا کوئی سپاہی ٹریفک جام کھلوانے نہیں آتا۔ ان کا بھتہ تھانے میں براہ راست بھی اور آن لائن بھی پہنچ جاتا ہے ۔سب سیاسی جماعتیں اور تنظیمیں حسب توفیق اپنا ہفتہ اپنا ماہانہ دکانوں برانڈز ریڑھیوں خوانچوں سے وصول کر رہی ہیں ۔گٹر کا پانی زیادہ روانی سے بہنے لگے تو دکان کے دروازے تک پہنچنے کیلئے اینٹیں، پتھر یا پھٹے رکھ دیے جاتے ہیں لاکھوں کمانے والے بے فکر ہزاروں خرچ کرنے والے بھی کوئی تردد نہیں کرتے ۔شاپنگ کا جنوں حاوی رہتا ہے۔ آپ کو بھی اپنے شہر قصبے میں ان تبدیلیوں کا سامنا کرنا پڑ رہاہوگا۔ہر شہر میں ناکے بھی لگائے جاتے ہیں۔ شہر کے مکینوں سے ہاتھ بھی اٹھوائے جاتے ہیں سر بازار پرسش بھی ہے۔ جامہ تلاشی بھی۔بلدیاتی دفاتر بھی افسروں سے بھرے ہیں۔ کونسلر بھی ہیں۔ یو سی چیئرمین بھی ۔ٹاؤن چیئرمین بھی۔ پورا نیٹ ورک ہے۔ پارکوں میں بنانے والوں کی تختیاں اتار کر اپنی تختیاں لگا دی جاتی ہیں۔ سوشل میڈیا پر اپنی کارکردگی کی تصویریں اور ویڈیو آویزاں کرنے کی دوڑ لگی ہے۔ ہر محکمے کو یوٹیوبرز بھی میسر ہیں، ویب سائٹ بنانے والے بھی، ویڈیو کلپ لگانے والے 'بھی ریل چلانے والے بھی، سب انسان ہیں، سب ایک دوسرے کے رشتہ دار بھی ہیں، محلے دار بھی، پارٹیوں والے، احتسابی اداروں کے سربراہ،کارکن، معائنے اور مشاہدے پر متعین گشتی ملازمین بھی۔ جن کی حساس ذمہ داری ہے کہ انسان کی حفاظت کے حوالے سے دیکھیں کہ کہیں موت تو بانہیں پھیلائے کسی بچے ،کسی ماں ،کسی بہن کے انتظار میں نہیں ہے۔ کیمرے ای چالان کر رہے ہیں ۔کیمرہ کسی سڑک کا ہلاکت خیز کھڈا کسی مین ہول کو کھلا دیکھ کر متعلقہ افسر کے گھر چالان نہیں بھیجتا کہ اس نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی، کیمرے بھی’’افسر دوست ‘‘ہیں۔ سارا سسٹم پرانا نیا ’’سرکار فرینڈلی‘‘ہے۔ سب کی ترجیح کمرشل ہے،ہفتہ ہے ،ماہانہ بھتہ ہے۔ سب انسان کی تذلیل میں اکثریت کی مشکلات میں دوسرے کی مجبوری سے پیسے بٹورنے میں ایک دوسرے کی مدد کر رہے ہیں ۔کوئی قاعدے قانون سے چلنا چاہتا ہے تو اسکے گھر والے، 'دفتر والے، 'محلے والے 'بھی اسے منع کرتے ہیں کہ کس مصیبت کو دعوت دے رہے ہو کچھ نہیں ہوگا ۔میں بھی یہ سب کچھ کیوں لکھ رہا ہوں میرا پندار بھی بار بار میرا قلم روک رہا ہے مجھے سمجھارہاہے کہ کوئی نہیں پڑھے گا۔ کسی دفتر میں اب اخبار نہیں پڑھے جاتے ۔کوئی کلرک اپنے باس کو اخباری تراشا نشان لگا کر فائل نہیں بھیجتا۔ سب کچھ بک رہا ہے۔ خریدنا پڑتا ہے۔ زندگی بھی، موت بھی، غوطہ خور بھی، کرین بھی۔انسان بک رہے ہیں ۔قومیں فروخت ہورہی ہیں ۔مگرکتنا ہی سرمایہ ہو، بینک بیلنس ہو، مامتا نہیں خریدی جا سکتی۔ ابراہیم کی معصومیت مسکراہٹ اربوں روپے میں بھی نہیں مل سکتی۔ اقبال بہت پہلے کہہ گئے تھے’’یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے‘‘۔