• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حکومتِ پاکستان کو ایک انٹرنیشنل این جی او نے سروے رپورٹ بھجوائی ہے ،جس میں دس لاکھ افغانیوں کو پاکستان سے بے دخل نہ کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ خاندان اربوں کی جائیدادیں خرید کر کراچی، لاہور، اسلام آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ، فیصل آباد جیسے شہروں میں رہائش پذیر ہیں لیکن بعض بااثر لوگ انہیں بلیک میل کرتے ہوئے ان سے کاروبار اور جائیدادیں ہتھیانےکیلئے کوشاں ہیں جبکہ ان کے پاس شناختی کارڈز اور پاکستانی پاسپورٹ تک موجود ہیں اور وہ گزشتہ پانچ دھائیوں سے یہاں آباد ہیں۔ ہمیں یہ مغالطہ ہے کہ شاید مالِ غنیمت وہی ہوتا ہے جو غیر مسلموں سے چھینا جائے۔ حالانکہ داؤ لگنے کی بات ہے جائیداد کے بالمقابل عقیدے اور رشتے بھی پیچھے رہ جاتے ہیں۔ آج بھی ہمارے سماج میں کتنے لوگ ہیں جو دوسروں کی پراپرٹی چھیننے کیلئے ان پر توہین مقدسات کے الزامات عائد کرتے ہیں انہیں مرواکر یا پھنسوا کر پراپرٹی ہڑپ کرلیتے ہیں ۔‎ہماری کتنی دینی تنظیمیں ہیں جنہیں آس پاس کے بھوکے ننگے غربت کے مارے بلبلاتے مسلمان قطعی دکھائی نہیں دیتے۔ البتہ انڈین کشمیر اور فلسطین میں یروشلم تک کے جہادیوں یا مظلوم مسلموں کا درد دن رات ان کے سینوں میں اٹھتا رہتا ہے کیونکہ انہی مظلوموں کے نام پر یہ لوگ چندے بٹورتے ہیں یہ چندہ ان کا دھندہ ہے جو بھاری عالمی ڈونیشنز کے حصول تک جاتا ہے اور ان کی قیادتوں کو مالا مال کرتا ہے ،جسے شک ہے وہ اسمعیل ہنیہ سے لے کر خلیل الحیہ تک کے بنک اکاؤنٹس کی تفصیلات ملاحظہ کرلے۔ درویش دن رات روتا ہے کہ اے میرے پیارے مذہبی پاکستانیو! اسلامی جمہوریہ کے حکمرانو! خدارا تصویر کا دوسرا رخ دکھانے کے لیے آزادئ اظہار کی تھوڑی سی گنجائش دے دو یہاں یک رخا پروپیگنڈاہے جس نے ہمارے عام اذہان کو اس بری طرح بیمار کررکھا ہے کہ وہ دوسرے پہلو کی جانکاری کو کفر کا بیانیہ خیال کرتا ہے۔ ‎ہمارے کتنے افغانی و شامی ہیں جو کافر مغربی ممالک میں گئے اور پھر ہمیشہ کے لیے وہیں کے ہوکر رہ گئے، وہاں وہ شریعہ کا نفاذ چاہتے ہیں ان ممالک میں حاصل انسانی حقوق اور آزادیوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے، ہمارے مسلمان، ان کے سماج پر حاوی ہونا چاہتے ہیں تاکہ وہاں کی حکمرانی بھی ہاتھ آجائے، نیشنیلٹی تو ویسے ہی ایک مخصوص مدت کے بعد ہمارے لوگوں کو وہاں مل جاتی رہی ہے جس کاوہ اپنے عرب مسلم خلیجی ممالک میں تصور نہیں کرسکتے، ظہورِ اسلام کے مرکز میں ذرا یسی حرکتیں کرکے دیکھیں آٹے دال کا بھاؤ معلوم ہوجائے گا۔ ‎ہماری اپنے حکمرانوں کی خدمت میں التماس ہے کہ یہ بدنصیب افغانی جو قریباً نصف صدی سے یہاں آباد ہیں جن کے بچے یہیں پل کر جوان ہوئے،ان بیچاروں کے بھی کچھ حقوق ہیں آپ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اس وقت افغانستان میں طالبان کی کس قدر ظالم اندھی، بہری جہادی حکومت برسرِاقتدار ہے جسے ہیومن رائیٹس یا ویمن رائیٹس سے کوئی سروکار نہیں، جس نے چھوٹی معصوم بچیوں کی ایجوکیشن پر بھی پابندی عائد کر رکھی ہے آپ ان معصوموں کوان طالبان کے آگے کیوں پھینک رہے ہیں؟‎آپ ان پختون یا افغانی بھائیوں کا ہر الزام بھارت پر کیوں دھرتے ہیں طالبان کے امیر المومنین ملاعمر کے تو آپ لوگ اس قدر قصیدے پڑھتے رہے ہو، آج اسی ملا عمر کا بیٹا ملا یعقوب افغان ڈیفنس منسٹر بناعرب میڈیا کے سامنے چلا رہا تھا کہ پاکستانی بھائی خواہ مخواہ ہمارا ہر الزام بھارت پر دھرتے ہیں حالانکہ ہماری موجودہ کشیدگی میں بھارت کا قطعی کوئی رول نہیں افغانستان ایک آزاد ملک کی حیثیت سے بھارت کے ساتھ اپنے تعلقات ضرور مضبوط کرے گا کیونکہ یہ ہمارے مفاد میں ہے، اسی طرح ہم پاکستان کے ساتھ بھی اچھی ہمسائیگی کی بنیاد پر تعلقات استوار کرنا چاہتے ہیں ہمارے لیے یہ بھی قابل غوروفکر ہونی چاہیے کہ کابل میں حکومت چاہے کسی کی بھی ہو افغانستان کا عام آدمی پاکستان سے نفرت اور انڈیا سے محبت کیوں کرتا ہے ؟ کیا اس حساس ایشو پر ہمیں نیشنل لیول کا مباحثہ نہیں کروانا چاہیے؟‎آج اگر پاکستان کی سٹریٹجیکل ریجنل سچوئشن کا جائزہ لیاجائے تو اس کے ایک طرف جس طرح بھارتی پنجاب اور راجستھان ہیں ہمارے سرائیکی خطے بہاولپور یا بہاولنگر انڈین خطہ راجستھان جیسی بودوباش رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہر دواطراف کے پنجاب بھی پنجابیت میں ملتے جلتے ایک ہی کلچر کے حامل ہیں۔ اسی طرح افغانستان سے ملحقہ خطوں کے عوام پختون یا بلوچ بھی افغانیوں جیسی تہذیبی مماثلت رکھتے ہیں لہٰذا ان سرحدوں کو بند ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ اپنے افغان بھائیوں اور انڈینز کے بیچ ہمارا رول کباب میں ہڈی جیسا ہرگز نہیں ہونا چاہیے، پورے خطے کو تجارت و سیاحت کے لیے کھلا ہونا چاہیے، بشمول بنگلہ دیش ۔خطے کے دو ارب سے زائد انسانوں کا مفاد اسی میں ہے۔ سیاسی مسائل جو بھی ہیں آج ہماری حکومت دھائیوںسے یہاں آباد اپنے پشتون بھائیوں کوبیدردی سےٹرکوں کے اندرپھینکتے ہوئے دوسری طرف جہادیوں کی جانب کیوں دھکیل رہی ہے؟

فلسطین اور چیچنیا تک سارے جہاں کا اسلامی درد اپنے سینوں میں رکھنے والوں کو کیا یہ رویہ زیب دیتا ہے؟؟ حقیقت میں تو ہمارا یہ خطہ ایک ہی تھا۔ اگر اس کی تقسیم ہو ہی چکی ہے تو ہمیں انسانی بنیادوں پر سوچتے ہوئے حوصلے سے کام لینا چاہیے ان بے گناہوں کے بھی اس دھرتی پر کچھ حقوق ہیں، مذہب کی مالا دن رات جپنے والوں کو ان پشتونوں کے انسانی حقوق کا بھی کچھ تو احساس و ادراک ہونا چاہئے۔

تازہ ترین