• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خوب ناخوب

پچھلے دنوں کراچی میں کھلے مین ہول میں گرنے سے ایک بچے کی جان گئی۔ٹیلی وژن چینلزتب سے اس واقعے پراحتجاج، سیاست اور جا بجا بغیر ڈھکن کے مین ہولزکی خبریں چلا رہے ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ اس پر حکومتی ردِعمل کیا اور کب ہوتا ہے اور اس کے نتائج کیا سامنے آتے ہیں۔اس تناظرمیں مجھے بیس بائیس سال پہلے کا ایک واقعہ یاد آگیاجب ابھی پرائیویٹ ٹیلی وژن چینلز کا ظہور نہیں ہوا تھا۔1990 ءکی دہائی کی وہ رات آدھی گزرچکی تھی۔ میں جنگ گروپ کے انگریزی اخباردی نیوزکے لوکل ایڈیشن کا اہتمام کر رہا تھا کہ لاہور میں کسی بچے کے کھلے مین ہول میں گرنے سے ہلاکت کی خبر فائل ہوئی۔ ایسی دو جملوں کی خبر عام طورپر اخبارات کے شہر سے متعلق صفحات پر چھپتی ہے۔ لیکن پس منظر، گزشتہ واقعات اور شاید اس رجحان پر تبصرے کا اضافہ کرکے میں نے اس خبر کو صفحہ اول کی سپرلیڈ لگایا۔ اس پر حکومتی ردِعمل میرے لیے حیرت اور خوشی کا باعث تھا۔ اگلے ہی روز وزیر اعلیٰ کے حکم پر حکومتی وزرا اور بڑے اور چھوٹے عمال اپنے اپنے علاقوں میں متحرک ہوچکے تھے کہ کہیں مین ہول بغیر ڈھکن کے یا کھلا نہ ملے کیوں کہ کسی بھی نئے واقعے کی ذمے داری ان ہی پر ہونا تھی۔ یہ ایک تجربہ تھا سماجی اور معاشرتی مسائل کو سیاسی بیانات پر اہمیت دینے کا جو یقیناً کام یاب رہا تھا۔ مختلف مطالعات اور جائزوں سے پتا چلتا ہے کہ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا میں انسانی حقوق اور سماجی مسائل کو بہت کم نمایاں کیا جا تا ہے۔ سیاست کو سب سے زیادہ کوریج ملتی ہے۔ میڈیا مسلسل سیاسی مواد کو غیر متناسب طور پر نمایاں کرتا ہے، جو اکثر تجارتی مفادات اور ناظرین کی توجہ حاصل کرنے کی جدوجہد سے جڑا ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں سماجی مسائل کی کوریج یا تو پس منظر میں چلی جاتی ہے یا حد سے زیادہ سادہ انداز میں پیش کی جاتی ہے۔ سیاسی تنازعات اور بحران زیادہ سنسنی خیز اور دلکش سمجھے جاتے ہیں، اس لیے یہ تفصیلی سماجی پالیسی تجزیے کے مقابلے میں زیادہ ریٹنگز اور کلکس پیدا کرتے ہیں۔میڈیا کے پاس عوامی بحث کا ایجنڈا طے کرنے کی بڑی طاقت ہے۔ مسلسل سیاسی ’’ہارس ریس‘‘(کون جیت رہا ہے/کون ہار رہا ہے) پر توجہ مرکوز کرنے سے یہ عوامی تاثر قائم ہوتا ہے کہ یہی سب سے اہم مسائل ہیں، جبکہ پالیسی سے متعلق حقیقی مسائل پیچھے رہ جاتے ہیں۔ سیاسی بیانات، پریس کانفرنسوں اور سیاسی شخصیات تک رسائی نسبتاً آسان ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، پیچیدہ اور نظامی نوعیت کے سماجی مسائل جیسے غربت، صحت کا نظام، موسمیاتی تبدیلی پر تحقیق مشکل اور وسائل طلب ہے۔

پاکستان میں بات چیت لازماً سیاست کی طرف مڑ جاتی ہے۔ خیالات کے بجائے شخصیات پر حد سے زیادہ بات ہوتی ہے۔ بیرونِ ملک مقیم پاکستانی ملکی سیاست میں کہیں زیادہ جذباتی اور رائے رکھنے والے ہوتے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پاکستانیوں کے درمیان ہونے والی بحثیں اسی غصّے اور عدم برداشت کی عکاسی کرتی ہیں جو پاکستان میں سیاسی مباحثے کے نام پر ہوتی ہیں۔جیسے ہی کوئی حکومت بنتی ہے، ہم اس کے خاتمے کی پیش گوئیاں شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری شدید تقسیم شدہ سیاست نے معاشرے کو ناقابلِ تلافی حد تک تقسیم کر دیا ہے یا آپ ایک پارٹی کے ساتھ ہیں یا دوسری کے، یا پھر دونوں کے خلاف، کوئی درمیانی راستہ نہیں۔ یہ تمام رقابتیں سیاسی عمل پر بھاری بوجھ ڈالتی ہیں۔ دوسرے ملکوں میں ان بنیادی معاملات کو برسوں پہلے طے کر لیا گیا تھا۔کسی بھی محفل میں جائیں، کہیں بھی آپ میزبان یا مہمان ہوں، لوگ یا تو خود اندر کی خبردے رہے ہوتے یا آپ سے اندرکی خبر جاننے کی جستجو میں ہوتے ہیں۔اوریہ اندرکی خبرسیاست ہی سے متعلق ہوتی ہے۔ چینلز اور سوشل میڈیا کے الگورتھم ایسے مواد کو بڑھا دیتے ہیں جو ناظرین کے موجودہ نظریات سے میل کھاتا ہو۔ سیاسی تنازع اس پولرائزیشن میں بآسانی فٹ بیٹھتا ہے، جس سے گہرے سماجی مسائل مزید پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔

سماجی مسائل پر رپورٹنگ اکثر سطحی، ردِعمل پر مبنی اور نظام کے مسائل کے گہرے تجزیے سے خالی ہوتی ہے۔ سماجی مسائل عام طور پر انفرادی واقعات کی صورت میں دکھائے جاتے ہیں، بجائے اس کے کہ انہیں وسیع تر تاریخی یا ساختی تناظر میں بیان کیا جائے۔ اس سے مسئلے کو صرف افراد کی غلطی قرار دینے کا رجحان بڑھتا ہے اور نظام کی اصلاحات کیلئے عوامی حمایت کم ہو جاتی ہے۔میڈیا جب پیچیدہ سماجی مسائل کی مناسب وضاحت نہیں کرتا تو عوام کے پاس ان مسائل اور انکے پالیسی حل کو سمجھنے کیلئے کم معلومات رہ جاتی ہیں۔جو مسائل میڈیا کی مستقل توجہ میں نہیں رہتے وہ نہ عوام کی بحث کا حصہ بنتے ہیں نہ پالیسی سازوں کی ترجیحات میں شامل ہو پاتے ہیں، جس سے سماجی اصلاحات مشکل ہو جاتی ہیں۔مجموعی طور پر میڈیا کا سیاست کو سماجی مسائل پر فوقیت دینا ایسے معاشرے کو جنم دیتا ہے جو اپنے بنیادی مسائل سے کم آشنا ہو، اور اس سے بامعنی عوامی شمولیت اور پالیسی سازی میں بھی رکاوٹ پیدا ہوتی ہے۔ سماجی مسائل اجاگرہوں گے تو ان سے نمٹنا آسان ہوگا۔ پھر کھلے مین ہول اور کسی بچے یا بڑے کا ان کا شکار ہونا ماضی کی بات ہوجائے گی۔ سماج اور معاشرہ صحت مندہوگا تو صحت منداور عوام پر مرکوزسیاست پروان چڑھے گی۔ ورنہ یہ عمر بھر کا سفر رائیگاں تو ہے!

تازہ ترین