• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرانسیسی یا مجموعی طور پر یورپی اقوام کا مطالعہ کریں تو ایک بات نمایاں نظر آتی ہےکہ انکی سوچ ہمیشہ ٹھوس، عملی، حقیقت پسندانہ اور طویل المیعاد بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ جدید دنیا میں ترقی اور استحکام کی علامت سمجھے جاتے ہیں۔ اس کے برعکس، جب میں اپنے وطنِ عزیز کے معاشرتی رویّوں، سیاسی ماحول اور قومی سوچ پر نظر ڈالتا ہوں تو کئی ایسے خلا نظر آتے ہیں جنہیں پُر کیے بغیر ہم آگے نہیں بڑھ سکتے۔تاریخ گواہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بارہا سنہری مواقع عطا کیے، مگر ہم اکثر انہیں نہ صرف ضائع کر تے رہے بلکہ ناقابل تلافی نقصان بھی کرتے رہے۔وقت بدلتا رہا، حالات کروٹیں لیتے رہے، لیکن ہم نے اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا وہ عمل کبھی نہیں اپنایا جو قوموں کو آگے لے جاتا ہے۔ فیلڈ مارشل محمد ایوب خان کے خلاف تحریک ہو یا ذوالفقار علی بھٹوکے انجام کی داستان سب کچھ ہمارے سامنے ہے، مگر ہم آج بھی انہی غلطیوں کو دہرا رہے ہیں جنہوں نے ہمیں بار بار نقصان پہنچایا۔

موجودہ صدی کی پہلی سہ ماہی میں بھی ہماری روش وہی ہے۔ اقتدار جس کے ہاتھ آتا ہے، وہ فوری طور پر خود کو قانون و احتساب سے بالاتر سمجھنے لگتا ہے۔ آنکھوں پر پٹی اور کانوں میں روئی ڈال کر فیصلوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور نشانہ ریاستی ادارے اور شریف لوگ بنتے ہیں۔ سابق حکومت کے مظالم کا ذکر ہی کافی ہےکہ سچی صحافت کے علمبردارادارے کے سربراہ کو جھوٹے اور بے بنیاد الزامات میں گرفتار کیا گیا۔ اب آتے ہیں موجودہ حالات کی جانب۔ یہاں عدالتی انصاف کے بنیادی اصولوں کے بجائے چھوٹی چھوٹی ملاقاتوں، پیشیوں اور رسائی نہ ہونے جیسے معمولی معاملات پر تنازعات کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ملک دشمن قوتیں اس ساری صورتِ حال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمارے سیاسی رہنماؤں اور اداروں کے خلاف پروپیگنڈا کرتی ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ریاستی دفاعی ادارہ بھی الزام تراشی کی زد میں ہے، جبکہ ہمارے سپہ سالار فیلڈ مارشل سید عاصم منیر،جو بین الاقوامی سطح پر اپنی صلاحیت، کردار اور حکمتِ عملی کے حوالے سے قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں،کے خلاف بے بنیاد باتیں محض چند ڈالرز یا سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی خاطر پھیلائی جا رہی ہیں۔فرانس میں سیاسی اور قانونی نظام کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ یہاں سابق حکمرانوں کے خلاف کرپشن یا بدعنوانی کے الزامات پر مقدمات ضرور چلتے ہیں لیکن کبھی سیاسی انتقام یا پکڑ دھکڑ نظر نہیں آتی۔ سابق صدر نکولا سرکوزی کو عدالتی فیصلے کے مطابق سزا ہوئی تو وہ قانون کے مطابق ہر روز جیل جاتے رہےنہ نعرہ بازی، نہ انتشار، نہ اداروں کی توہین۔ اسی طرح اپوزیشن لیڈر مارین لی پین کو بھی عدالت نے ایک مقدمے میں سزا سنائی جس کے بعد معاملہ اپیل میں چلا گیا، مگر نہ ملک رکا، نہ سیاست۔ اگر ہم بھی سیاسی نوعیت کے مقدمات کے لیے ایسا نظام بنا لیں جس میں کردار کشی، تذلیل اور میڈیا ٹرائل کے بجائے پرسکون اور شفاف طریقے سے احتساب ہو، تو یقیناً سیاسی عدم استحکام، دھونس دھاندلی اور ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہے۔اسی تناظر میں فرانس کی ایک تازہ مثال ہمارے لیے سبق ہے۔ نئے چیف آف ڈیفنس اسٹاف، جنرل فابین مینڈون نے عہدہ سنبھالنے کے صرف دو ہفتے بعد اپنے فوجیوں کو سخت پیغام دیا کہ خود سے جھوٹ نہ بولیں۔ حقائق کا سامنا کریں، تب ہی ہم آنے والے چیلنجز کا مقابلہ کر سکیں گے۔انہوں نے واضح کیا کہ خود فریبی اور غفلت ایک ایسی کیفیت ہے جس میں لوگ یہ کہنے لگتے ہیںکہ ’یہ اتنا سنجیدہ نہیں، سب ٹھیک ہے، کوئی خطرہ نہیں‘اور یہی رویہ کسی بھی قوم کے دفاع کو اندر سے کمزور کر دیتا ہے۔مزید برآں، جنرل مینڈون نے روس کے بڑھتے ہوئے خطرے کے پیش نظر فرانس کو ہر طرح کی قربانی کے لیے تیار رہنے کا مشورہ دیا۔ ان کی یہ گفتگو یورپ بھر میں نئی بحث لے آئی کہ یوکرین جنگ کے تناظر میں فرانس اور اس کے اتحادی کس حد تک جانے کو تیار ہیں۔ 2022 میں روسی حملے کے بعد سے جنگ اب بھی جاری ہے۔ یورپی ممالک یوکرین کی بھرپور مدد کر رہے ہیں مگر ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کرتے ہیں کہ وہ اس جنگ کا براہِ راست حصہ نہیں بننا چاہتے۔

جنرل مینڈون کے مطابق’’ ہمارے پاس علمی، معاشی اور آبادیاتی صلاحیت موجود ہے جو ماسکو کو روک سکتی ہے، مگر کمی اخلاقی قوتِ برداشت کی ہےاپنی اقدار کی حفاظت کے لیے تکلیف برداشت کرنے کی طاقت درکار ہے‘‘۔انہوں نے مزید تنبیہ کی’’روس 2030ءتک ہمارے ممالک کے ساتھ ممکنہ تصادم کی تیاری کر رہا ہے۔ ہمیں حقیقت کا سامنا کرنا ہی ہوگا۔‘‘فرانسیسی سیاسی حلقوں میں ان بیانات پر ردعمل آیا۔ دائیں بازو کے سیاست دانوں نے اسے خشونت قرار دیا، جبکہ حکومت نے جنرل مینڈون کے مؤقف کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے قوم کو حقیقت کے قریب رہنے کی نصیحت کی ہے۔اسی سلسلے میں فرانسیسی حکومت نے ’ہر ایک ذمہ دار‘ کے عنوان سے ایک جامع گائیڈ بھی جاری کی ہے جس میں ہر شہری کو ایک ایمرجنسی کٹ تیار رکھنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ اس کٹ میں خوراک، پانی، ادویات، بیٹری والا ریڈیو اور بچوں کے لیے گیمز تک شامل کرنے کی ہدایت دی گئی ہے تاکہ کسی بڑے بحران یا بیرونی جارحیت کی صورت میں قوم تیار ہو۔

یہ سب کچھ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے تاریخی تناظر میں بہت معنی خیز ہے۔ فرانس مستقبل کے ممکنہ خطرات کیلئے اپنی قوم کو ذہنی طور پر تیار کر رہا ہے۔اس کے مقابلے میں ہم آج بھی باہمی انتشار، الزام تراشی، اداروں سے تصادم اور وقتی مفاد کی سیاست میں الجھےہوئے ہیں۔ ترقی اور استحکام تب آئیگا جب ہم حقیقت کا سامنا کرینگے، اجتماعی ذمہ داری کو قبول کریں گے، اور اپنی اقدار و اداروں کی حفاظت کیلئے متحد ہوں گے جیسا کہ ترقی یافتہ دنیا نے ہمیشہ کیا ہے ۔

تازہ ترین