• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکہ کے ایک اہم ادارے راسموس نے ایک رپورٹ جاری کی ہے کہ اقتصادی بحران کا شکار امریکی قوم میں سرمایہ دارانہ نظام کی مقبولیت میں تیزی سے کمی کے ساتھ’’سوشلزم‘‘ ،جس کو کچھ عرصہ قبل امریکہ میں ممنوعہ لفظ سمجھا جاتا تھا، کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اقتصادی بحران کے بعد سرمایہ داری نظام کو سوشلزم سے بہتر سمجھنے والے امریکی شہریوں کی شرح 50 فیصد سے کچھ ہی زائد رہ گئی ہے 40 سال سے زیادہ امریکی شہریوں کی اکثریت نے کساد بازاری سے پاک سرمایہ دارانہ نظام کو سوشلزم سے بہتر قرار دیا تا ہم اس سے کچھ کم عمر کے شہریوں کی ایک بڑی تعداد نے سوشلزم کو بہتر نظام قرار دیا۔ 27 فیصد نے کہا ہے کہ وہ نہیں جانتے سرمایہ دارانہ نظام بہتر ہے یا سوشلزم معیشت۔ سروے کے مطابق امریکہ سے تعلق رکھنے والے 32 فیصد افراد سوشلزم کے حامی ہیں ۔

ادھر امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی نے عالمی اقتصادی بحران اور کسادی بازاری پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مارکسسٹ لینن ازم کا دور پھر آگیا ہے۔ امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق امریکہ کی کمیونسٹ پارٹی کی اعلیٰ عہدہ دارپیانا نے بتایا ہے کہ موجودہ عالمی اقتصادی بحران کارل مارکس اور فریڈرک اینگلز کی پیشن گوئی کے عین مطابق ہے اور اب دنیا کو ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ ہمارا وقت دوبارہ آ پہنچا ہے اس وقت دنیا بھر کے عوام ایک اہم موڑ پر کھڑے ہیں انہوں نے کہا ہے کہ امریکی کمیونسٹ پہلی بار دفاعی پوزیشن سے باہر آگئے ہیں ہم اپنی دنیا تخلیق کرنا چاہتے ہیں یہ ایسی دنیا ہوگی جو چند افراد کے فائدے اور خوشی کے بجائے معاشرے کے تمام طبقات کیلئے آسودگی اور راحتیں لے کر آئے گی،انہوں نے بتایا کہ نوجوانوں کے اہم مسائل مثلاً امن، تعلیم، صحت اور روزگار ہیں اور ہم یہ سب فراہم کر سکتے ہیں۔

میرے ہمسایہ ملک جرمنی میں ایک معروف پبلشر کا مضمون اخبار میں شائع ہوا ہے جس میں یہ جرمن پبلشر یوران (جوران) لکھتا ہے کہ اگر یہ فیشن نہیں ہے تو پھر حقیقت ہے کہ ان دنوں کارل مارکس کی کتابوں کی فروخت بہت بڑھ گئی ہے، میرے اپنے ادارے میں مارکس کی کتابوں کی فروخت میں 2005 میں ہی اضافہ شروع ہو گیا تھا لیکن آج صورتحال اس سے کئی گنا مثبت ہے۔ میرے حساب سے جرمن پبلشر کی بات کو امریکہ کے نائب صدر نے اپنی بریفنگ میں دوسرے رنگ میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ امریکہ کی ڈوبتی معیشت کو بچانے کیلئے 17 کھرب ڈالر درکار ہیں جب کہ ملکی معیشت اندازوں سے زیادہ دگرگوں ہے امریکی ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی نائب صدر نے کہا ہے کہ وہ اقتصادی ماہرین کی رائے سے متفق ہیں کہ ملکی معیشت بے حد خراب ہے اور اس کو ڈوبنے سے بچانے کے لیے فوری طور پر 17 کھرب ڈالر کی ضرورت ہے تاہم معیشت کو مکمل ڈوبنے سے بچانے اور نیا بیل آؤٹ پیکیج لانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے۔ یہ بات دنیا پر واضح ہو گئی ہے کہ امریکی سرمایہ دارنہ پالیسیوں نے امریکہ میں معاشی عدم استحکام اور معاشی عدم توازن کو جنم دیا ہے جسکے سبب فوجی اور سیاسی سطح پر بالادستی حاصل کرنے کے بعد بھی یہ ملک پس ماندگی اور تباہی کی طرف جاتا ہوا دکھائی دے رہا ہے۔ امریکہ میں عدم توازن کی پالیسی یہ ہے کہ ایک ڈچ رپورٹ کے مطابق 2017 کے آخر تک امریکہ کی 10 فیصد آبادی پورے ملک کی 70فیصد دولت کی مالک تھی اور باقی 90 فیصد کے پاس صرف 30 فیصد دولت تھی ـ ان 10 فیصد میں صرف ایک فیصد لوگ ایسے ہیں جن کے پاس کل امریکی دولت کا 38 فیصد ہے اور جن 90 فیصد کے پاس 30 فیصد دولت ہے ان میں 40 فیصد ایسے ہیں جن کے پاس امریکی دولت کا ایک فیصد بھی نہیں ہے یعنی یہ لوگ انتہائی غربت و کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اس سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ کی نصف آبادی معاشی اعتبار سے بے حد پس ماندہ ہو چکی ہے۔ رپورٹس بتاتی ہیں کہ امریکہ میں اقتصادی بحران کا آغاز بیسویں صدی کے آخری برسوں میں شروع ہو گیا تھا پھر اس کے اثرات کافی حد تک 2005 ء اور 2006ء میں سامنے بھی آگئے تھے جبکہ 8-2007ءمیں اقتصادی بحران کا یہ جن پورے طور پر سامنے آ کھڑا ہوا لیکن صدر جارج بش نے اپنے باپ جارج بش سینئر کے جارحانہ مشن کو آگے بڑھانے کیلئے امریکہ کی طاقت کا بے جا استعمال شروع کر دیا حالانکہ یہ وہ زمانہ تھا جب اقتصادی بحران داخلی سطح پر امریکہ کا محاصرہ کر رہا تھا جبکہ جارج واکربش کا 8 سالہ دور خارجی معاملات میں دلچسپی لینے کا تھا ہی نہیں بلکہ داخلی مسائل کو حل کرنے کیلئےانتھک کوشش کرنے کا تھا۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص یا کوئی معاشرہ یا کوئی ملک غلط راستے پر چل پڑتا ہے اور کوئی اس کا ہاتھ نہیں پکڑتا تو وہ یہ سوچنے لگتا ہے کہ ہو نہ ہو وہ صحیح راستے پر ہے حالانکہ وہ غلط راستے پر ہوتا ہے لوگ اس کا ہاتھ اس لیے نہیں پکڑتے کہ وہ اسے پوری طرح تباہ و برباد دیکھنا چاہتے ہیں یاد رہے کہ یہاں معاشرے سے مراد ہر معاشرہ اور ملک سے مراد ہر ملک ہے ۔

داغ چُھوٹا نہیں یہ کس کا لہو ہے قاتل

ہاتھ بھی دُکھ گئے دامن تیرا دھوتے دھوتے

تازہ ترین